عرب بہار کی نئی لہر؟


نوجوان محمد البوعزیز ی کا تعلق تیونس سے تھا، یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود بیروزگاری کا شکار محمد ٹھیلہ لگا کر اپنی معاشی ضروریات پوری کرتا تھا۔ مقامی بلدیہ کے اہلکاروں نے سبزی فروش محمد البوعزیزی کوایک دن کسی بات پر تھپڑ رسید دیا، جس پر پہلے سے دلبرداشتہ نوجوان زندگی سے مایوس ہوگیا، اور 17 دسمبر 2010 کو شہر کے وسط میں عوام کے سامنے خود کو آگ لگادی۔ محمد البوعزیزی کے اس عمل تیونس میں غم و غصے کے لہر دوڑ گئی اور عوام حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔

تیونس کے صدر اس وقت زین العابدین بن علی تھے، جو 23 سال سے برسراقتدار تھے، اور اپنے اسلام مخالف اور ظالمانہ طرز حکمرانی کے حوالے سے بدنام تھے۔ محمد البوعزیزی کی خودکشی کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کچھ دنوں میں ملک بھر میں پھیل گئے اور قریبا ایک ماہ بعد زین العابدین کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ تیونس کے کامیاب عوامی تجربے کے بعد دیگر عرب ممالک میں بھی غاصبانہ حکومتوں کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوگیا، چنانچہ 25 جنوری کومصر کے میدان التحریر (آزادی اسکوائر) پر عوام کی بڑی تعداد نے حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا، حکومت اور مظاہرین کے درمیان چند دن جھڑپیں ہوئی جس کے بعد بالآخر حسنی مبارک کو بھی اپنا منصب چھوڑنا پڑا۔

اسی طرح لیبیا میں معمر القذافی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی جو ان کے قتل پر ختم ہوئی، اور یمن میں دو عشروں سے اقتدار پر قابض علی عبداللہ صالح کو مستعفی ہونا پڑا۔ شام میں بھی حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہیں۔ 2011 میں عرب بیداری کی اس تحریک کو الربیع العربی ’عرب بہار‘ کہا جاتا ہے۔ عرب بہار کا بنیادی مقصد عشروں سے اقتدارپر قابض نا اہل حکمرانوں اور ان کے ظالمانہ نظام خلاصی تھا۔

احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں حکمران تو تبدیل ہوگئے، تاہم ان کے فاسد نظام ایک بار پھر نئے چہروں کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوگئے، جس کے بعد قدیم نظام کے حامیوں کی جانب سے عرب بہار کو ناکام اور فسادی تحریک قرار دیا جانے لگا، مبصرین نے اندازے ظاہر کیے کہ عرب بہار کے تلخ تجربے کے بعدعرب ممالک کی عوام آئندہ کئی سالوں تک احتجاجی تحریک میں دلچسپی نہیں لیں گے۔

عرب بہار کی ابتدائی ناکامی کے بعد عوام مایوس تو ضرور ہوئے، مگر حالیہ مہینوں میں محسوس ہوتا ہے کہ عرب بہار کی نئی لہر ابھر رہی ہے، جس کا آغازاس مرتبہ سوڈان سے ہوا ہے۔ سوڈان 1956 تک مصر کا حصہ تھا، تاہم مصر اور سوڈان پر برطانوی قبضے کے بعد دونوں ممالک تقسیم ہوگئے، بعد ازاں 2011 میں جنوبی سوڈان نے سوڈان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ دیگر عرب ممالک کی طرح سوڈان میں بھی عسکری حکام کا زور رہا، چنانچہ 1957 میں پہلی مرتبہ مارشل لا لگانے کی نا کام کوشش کی گئی، 1958 میں یہ کوشش کامیاب ہوگئی۔

قریبا آٹھ سال بعد عوامی طاقت سے فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا او ر اسماعیل ازہری کی قیادت میں جمہوری حکومت منتخب ہوئی، تاہم کچھ عرصے بعد ایک مرتبہ پھر مارشلا لگادیا گیا اور جمال عبدالناصر کے طرز پر قومیت پسند حکومت قائم ہوگئی۔ اس دوران سوڈان میں حسن الترابی منظر نامے پر آئیں، یہ اخوان کے سربراہ اور اسلام پسند سیاستدان تھے، وہ سمجھتے تھے کہ مذہبی طبقے کو فوج میں شامل ہونا چاہیے تاکہ فوج میں اسلامی ذہن پروان چڑھے، ان کی اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے کئی اسلام پسندوں نے اپنے بچوں کوفوج میں بھرتی کروایا، ان بچوں میں عمر البشیربھی شامل تھا۔ 1985 میں بائیں بازو اور اسلامی جماعتوں کی کوششوں کے نتیجے میں قومیت پسند حکومت کا خاتمہ ہوا، بعد ازاں ’جرنیلی روایات‘ کے برعکس جرنیل سوار الذہب نے اقتدار جمہوری حکومت کو منتقل کیا، احمد المرغانی سوڈان کے صدر منتخب ہوئے، جبکہ پارلیمانی انتخابات کے بعد حسن الترابی بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہوگئے۔

1989 میں حسن الترابی کو محسوس ہوا کہ احمد المرغانی اسلام پسندوں کے خلاف اقدامات اٹھارہا ہے، اور مذہبی طبقے پر پابندیاں لگا رہا ہے، چنانچہ انہوں نے فوج میں موجود اسلام پسند طبقے کی مدد سے فوجی انقلاب لانے کا فیصلہ کیا! مذہبی طبقے میں سب سے زیادہ اعلی رتبے والے فوجی کو انقلابی بیان پڑھنے کی ذمہ داری سونپی گئی، دلچسپ بات یہ تھی کہ اس فوجی کو انقلاب سے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا، جو بیان اس نے قوم کے سامنے پڑھا وہ بھی حسن الترابی و دیگر رفقا کا تیار کردہ تھا، انقلابی بیان پڑھنے والا یہ فوجی عمر البشیر تھاجو 1989 سے آج تک اقتدار پر قابض ہیں۔ عمر البشیر کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد حسن الترابی سے اختلافات ہوگئے، اور اس نے الترابی اور دیگر فعال شخصیات کو گرفتار کرکے اقتدار پر بھر پور طریقے سے قبضہ جمالیا۔

عمر البشیر کی نا اہلی کی وجہ سے آج سوڈان کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے، ان حالات سے تنگ آکر سوڈان کی عوام عمر البشیر کی غاصب حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں، قریبا دو ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہیں، 50 افراد سوڈانی پولیس کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں، 1000 گرفتار ہیں، لیکن احتجاج کا سلسلہ اب بھی جاری ہیں، اور عمر البشیر پسپا ہوتے نظر آرہے ہیں، انہوں نے عوامی دباو کے نتیجے میں اپنی جماعت کی سربراہی چھوڑ دی ہے، امید ہے کہ جلد اقتدار سے بھی علیحدہ ہوجائیں گے۔

الجزائر میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں، الجزائر میں فرنگی قبضہ 100 سال سے زائد رہا، جس کے دوران انہوں نے سلامتی اور امن کے ی پاسدار فرنگی افواج نے 70 لاکھ جزائریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ 1962 میں فرنگی افواج تو واپس لوٹ گئی لیکن عسکری اداروں میں موجود ان کے تربیت یافتہ افراد ان کے لیے خد مات سرانجام دیتے رہیں۔ چنانچہ گزشتہ صدی کے اواخر میں الجبہہ الاسلامیہ للانقاذ کی فتح کے خوف سے انتخابات ملتوی کرنے کے بعد خانہ جنگی چھیڑی گئی، پھر 1999 عبدالعزیز بوتفلیقہ کو عوام پر مسلط کردیاجو 20 سال اقتدار پر قابض رہنے کے بعد ایک بار پھر چلنے پھرنے اور بات کرنے سے معذور ہونے کے باوجود پانچوی مدت کے لیے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں رہے تھے، تاہم لاکھوں الجزائریوں نے احتجاج کیا اور چند ہی دنوں میں بوتفلیقہ کاغذاتی نامزدگی واپس لینے پر مجبور ہوگئے، لیکن معمر صدر نے اپنی نامزدگی کے ساتھ انتخا بات کو بھی ٹال کر غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

مصر میں بھی عرب بہار کی ئی لہر کے آثار نظر آتے ہیں، گزشتہ دنوں متنازعہ عدالتی کارروائی کے بعد 9 افراد کو پھانسی دینے اورٹرین حادثہ میں لوگوں کی ہلاکت پر عوام میں شدید غم و غصہ ہے۔ نا اہلی، کرپشن، اسرائیل دوستی، شدت پسندی اور معاشی مسائل عبدالفتاح السیسی کے کارنامے ہیں، تاہم لگتا ہے کہ ان کارناموں کا حتمی نتیجہ جلد نکلنے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).