نیوزی لینڈ والے سانحے پر مزا نہیں آرہا


نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے سانحے نے پاکستان کے بعض حلقوں میں ایک بار پھر سے اس کی حرکیات کے متعلق بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک طبقہ ہمیشہ کی طرح اس واقعے کو بھی ایک مخصوص نکتہ نظر سے دیکھ رہا ہے جو سازشی تھیوریوں اور مظلومیت کے ملغوبے سے بنتا ہے۔ کل ملا کر اس طبقے کے چار اعتراضات ہیں۔ پہلا حملہ آور کو دہشتگرد کہنے کی بجائے دماغی مریض کیوں کہا جارہا ہے۔ دوسرا اس سانحے پر دنیا بھر بالخصوص پاکستان کا لبرل طبقہ شدید احتجاج کیوں نہیں کرتا۔ تیسرا حملہ آور کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کی بجائے محتاط سیاسی بیانات سے کام کیوں لیا جارہا ہے۔ چوتھا اس سانحے پر عالمی و اسلامی برادری نیوزی لینڈ حکومت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ سترہ سال سے پاکستان ایک غیرعلانیہ جنگی حالت میں ہے اور اس پرفتن اور کٹھن دور میں پاکستانی عوام نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ دیا۔ ہماری عوام نے جدید تاریخ کے بھیانک ترین دہشتگرد حملے سہے جس سے ہم پر نفسیاتی و سماجی طور پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک نکتہ نظر یہ بھی پیدا ہوا کہ ہم پر یہ ظلم اس لئے ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کا خون ہی سب سے سستا ہے۔ مسلم ممالک پر مظالم کے سیاسی، تزویراتی، معاشی و دفاعی مقاصد کے پیچھے کارفرما قوت دراصل مذہبی ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں ایسے سانحات پر اسی قسم کی بحث شروع ہوجایا کرتی ہے کہ چونکہ وہ مسلمان تھے اس لیے ان کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔

جہاں تک پہلے اعتراض کا سوال ہے تو اس کے لئے یہ واضح رہے کہ موجودہ حالات میں دہشت گردی کی تعریف ایسے عناصر کے ساتھ مخصوص ہے جو کسی انتہاپسندانہ نظریہ کے تحت گروہی شکل میں اپنی ساخت، اشکال اور افعال کی بنیاد پر پہچان رکھتے ہوں اور دہشتگردی کے عمل کو قبول کرتے ہوں۔ اس سانحے میں ایک شخص اپنی ذاتی سوچ کے تحت انتہائی قدم اٹھاتا ہے جس کی فکر اور فلسفہ صرف اسی تک محدود ہیں۔ ایسے مجرم کو دماغی طور پر درست نہیں کہا جاتا۔

تاریخ میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ گوڈسے نے گاندھی کا قتل اس لئے کیا کہ وہ سمجھتا تھا کہ گاندھی ہندوستان توڑنے کا ذمہ دار ہے۔ کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ بھی محض ناپسندیدگی کی وجہ سے قتل ہوئے۔ یہ انفرادی افعال تھے اس لئے ان کو نفسیاتی مجرم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے ان کی جرم کی نوعیت پر فرق نہیں پڑتا۔ دوسرا اعتراض بھی اس احساس کمتری کو ظاہر کرتا ہے جو عام طور پر آمر اور تیسری دنیا کے سربراہان اپنے مفادات کی خاطر اپنی اپنی عوام میں ترویج دیتے ہیں۔

سازشی و مظلومانہ سوچ سے عالمی سیاسی ڈھانچے سے نفرت سیکھنے کو ملتی ہے جس کی وجہ سے اداروں کی بجائے شخصیات پر تکیہ کیا جانا سکھایا جاتا ہے اور اسی قسم کی سوچ ہمارے سماج میں بھی اچھی خاصی مضبوط ہو چکی ہے۔ لیکن جس ملک کے ادارے مضبوط ہوں، اپنی حدود میں رہ کر کام کررہے ہوں اور عوام کا اعتماد رکھتے ہوں ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے احتجاج اور توڑ پھوڑ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس سانحے سے ہر ذی شعور انسان ذہنی طور پر متاثر ہوا ہے اور مذمت بھی کرتا ہے لیکن اگر اسے ملک کے نظام انصاف پر یقین ہے تو وہ انصاف ہونے کا انتظار صبروتحمل سے کرتا ہے۔ اور نیوزی لینڈ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انصاف میں گڑبڑ کی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔

تیسرا اعتراض جس کے ہم پاکستانی شاید زیادہ عادی ہوچکے ہیں گزشتہ دو چار برسوں سے، یہ ہے کہ اس پورے سانحے پر نیوزی لینڈ حکومت دوٹوک اور سخت الفاظ میں پیغام نہیں دے رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی وزیراعظم ببانگ دہل کہے کہ مجرم کو چوک پر ٹانگ دوں گی یا سڑکوں پر گھسیٹوں گی یا اس کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوگی۔ ان کا وزیراطلاعات مجرم کے لتے لے اور وہ حقیقی سازش کا ”انکشاف“ کرے جو اس کے پیچھے کارفرما ہے۔ کچھ معطلیاں اور برخاستگیاں ہوں۔ جے آئی ٹی بنے، دھرنے ہوں اور کوئی دردناک گانا بنایا جائے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نیوزی لینڈ حکومت کو واقعی سزا دلوانے میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی کہ اس بات کی ہے کہ وہ اس سانحے کی عرق ریزی سے اسٹڈی کریں۔ اس درندہ صفت کی سوچ اور اس کا پس منظر سمجھیں۔ اپنے اداروں کی کمی بیشی کو مدنظر رکھیں اور پھر اس تناظر میں اصلاحاتی پالیسیز اور قانون سازی مرتب کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کے امکانات معدوم ہوسکیں۔

آخری اعتراض کے متعلق عرض ہے کہ نیوزی لینڈ قریباً نیوٹرل ملک ہے۔ جس کی نہ تو کسی سے دشمنی کی داستانیں ہیں اور نہ ہی گہری دوستی کی۔ ایک الگ تھلگ سا ملک جس سے مفادات کی وابستگی معمولی سی ہے۔ ایسے حالات میں عالمی برادری یا مسلم برادری کیونکر دباؤ ڈالے۔ سوائے مذمتی بیان کہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ چلی کو کیا فکر کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ کانگو کا مسئلہ حل کرنے کا دباؤ ڈالے۔ قازقستان کے ماریشس پر دباؤ کے کیا معنی؟

اس قسم کے سانحات میں یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہر گورا عقلمند نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں بھی کثیر تعداد میں ایسے پست ذہنیت کے لوگ پائے جاتے ہیں جو حقائق کو سمجھے بغیر درندگی پر اتر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).