اسرائیل، پاکستان اور عمران خان


کہنے والے کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ سازشی نظریات ( Conspiracy theories) کا معاشرہ ہے۔ بہت سے لوگ بہت سے دعوؤں پر ہنستے ہیں۔ مثلاً بہت سے افراد کے لئے یہ ایک ہنسی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ عرصہ قبل اسرائیل کا ایک جہاز وارد ہوا تھا اور دس گھنٹے تک رک کر گیا تھا۔ چلئے زور سے ایک مرتبہ اس بات پر قہقہہ مار کر ہنسئے! مگر ہمارا موضوع مبینہ اسرائیلی جہاز ہر گز نہیں ہے۔ ہم ان چند خوش قسمت یا بدقسمتوں میں شامل ہے جس کا اسرائیلیوں سے بڑا تفصیلی اور علمی مکالمہ انٹرنیٹ پر ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی اکثریت بھی محض گالم گلوچ کرنے ہی انٹرنیٹ موجود ہوتی تھی مگر اسی مڈبھیڑ میں ایک آدھ سنجیدہ اور بہتر لوگ بھی مل جاتے تھے۔

ہماری کئی مرتبہ اسرائیل کے وجود پر اور فلسطینیوں کے حالات پر بات ہوئی۔ اسرائیلیوں کے پاس اپنے وطن کے وجود کے لئے عجیب و غریب دلائل ہوتے ہیں اور جب ان دلائل پر علمی بحث ہوتی ہے تو وہ دو منٹ میں پسپا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت داؤدؑ کے ادوار حکومت میں بنی اسرائیل اس خطے میں مقیم رہے تھے۔ اس لئے انہیں کنعان (صہیون) میں رہنے کا حق ہے۔ اس منطق سے مسلمان اسپین پر حکومت کا حق مانگ سکتے ہیں اور بدھ مت کے ماننے والے افغانستان پر۔

پھر ایک دلیل یہ ہوتی کہ خدا نے ان سے تورات میں کنعان کا وعدہ کیا ہے۔ اس دلیل کو پھیلایا جائے تو ہر مذہب کا ماننے والا اپنی مذہبی کتاب سے کوئی خاص علاقہ اپنے نام الاٹ کرانے کی تحریک چلا سکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ کسی دوسرے عقیدے کے حامل افراد کے علاقے کو محض اس دلیل سے ہتھیار لینا کہ آپ کی مذہبی کتاب میں درج ہے کہ فلاں زمین آپ کی ہے، کوئی منطقی عمل تو نہیں۔ خاص کر کہ جب آپ ایک سیکولر اور جدید قوم ہونے کے دعویدار بھی ہوں۔

پھر ایک دلیل یہ آتی تھی کہ یہود کا جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں یورپ میں جرمنوں اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھوں بہت قتل عام ہوا تو ان کے لئے ایک ملک کا ہونا لازمی ہے تا کہ وہ محفوظ رہ سکیں۔ عجیب بات ہے کہ قتل عام یورپ میں ہوتا ہے اور تلافی کے طور پر زمین عربستان میں اس قتل عام سے پہلے ہی الاٹ کر دی جاتی ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ طاقتور کب دلیل کی بات کو سنتا ہے؟ کب مانتا ہے؟ طاقتوروں کی نفسیات کمزوروں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔

ہمارے ملک پاکستان کی تخلیق میں فکری اعتبار سے جس قدر حصہ علامہ اقبال کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں اور عملی اعتبار سے جس قدر حصہ قائد اعظم کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں۔ ان دونوں ہی اشخاص نے ہمیشہ وجود اسرائیل کی شدید مخالفت کی اور ان کے اسرائیل کے حوالے سے ارشادات ریکارڈ پر موجود ہی ہیں۔ اسی لئے جب پاکستان وجود میں آیا (اور تب ہی اسرائیل بالکل کسی پھوڑے کی طرح پھٹ کر سامنے آیا) تو ہمارے ملک کے اکابرین نے یہ فیصلہ کیا کہ اسرائیل کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ریاست کو تسلیم نہیں کرنا ہے۔

وہ خطہ جو اسرائیل کہلا رہا ہے، فلسطین ہے اور اس پر حق صرف فلسطینیوں کو حاصل ہے۔ ابتداً عالم عرب بھی اس بات پر متفق تھا اور اسرائیل کو کوئی عرب ملک تسلیم نہ کرنا تھا۔ عربوں نے اسرائیل سے کئی جنگیں کیں مگر اپنی نااہلی کی وجہ سے اسرائیل سے شکست کھاتے رہے۔ پھر اردن، مصر وغیرہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ محمد بن سلیمان (MBS) ٹرمپ کے داماد جارڈکشنر کی کٹھ پتلی  ہے اور جارڈکشنر نہ صرف ایک یہودی ہے بلکہ ایک صہیونی (Zionist) بھی ہے جو عملاً اسرائیلی پالیسیز کو عالم عرب میں نافذ کرنے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں MBS صاحب نے ارشاد فرما دیا کہ یہود کو ایک ریاست کا حق حاصل ہے۔ ظاہر ہے ان کی مراد اسرائیل سے ہی تھی۔ اور محترم سلطان قابوس صاحب کو بھی اب اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت نظر آ رہی ہے۔

جارڈکشنر کے پیچھے ٹرمپ کی طاقت ہے اور ٹرمپ کے ساتھ امریکی قوت کا آتش فشاں ہے۔ اب عالم عرب جو کمزور اور دیمک لگے سلطانوں کے زیر فرمان ہے وہ کہاں ان قوی فراعنہ کے آگے چوں بھی کر سکتے ہیں، خاص کر جب ان کے پاس کوئی اخلاقی سبقت یا اپنے عوام کی حمایت بھی نہ ہو؟ صہیونی اسی طرح دنیا کو قابو کر لیتے ہیں۔ دیکھئے اس ننھے سے ملک نے کیسے بھارت کو اپنے قابو میں کیا ہے اور کیسے امریکا جیسے قوی اور دیوہیکل ملک کو بھی، جسے وہ نکیل ڈال کر چلا رہا ہے۔

پاکستان گو کہ امریکا کے ایک عرصے تک قریب رہا مگر پھر بھی اسرائیل سے پاکستان کی قربت کبھی نہ ہوئی۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے عالم عرب کی مدد بھی کی تھی مگر جنرل مشرف کے عہد میں یہ سعی شروع ہوئی کہ کسی طرح پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ مشرف اپنی اس خواہش کو عوامی ردعمل کے ڈر سے پورا نہ کر سکا۔ مگر اب اسرائیل کو عمران خان کی صورت میں اپنا ایک ایسا وکیل مل گیا ہے کہ سرزمین پاکستان بھی اب نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کر لے گی بلکہ غریب و کمزور فلسطینیوں کی صرف و محض اخلاقی حمایت کرنے والے ایک اور ملک پاکستان بھی اپنے مظلوم فلسطینی مسلم بھائیوں کے بجائے صہیونیوں کی طرف کھڑا ہو گا۔

عمران خان صاحب پاکستان کے لئے جارڈکشنر ہیں۔ آپ کی سابق اہلیہ برطانوی شہری ہونے کے باوجود اسرائیل کی عظمت کے گیت گاتی ہیں۔ عمران خان صاحب ابھی چند ہی سال قبل جمائمہ صاحبہ کے برادر کے لئے لندن میں میئر کے انتخابات کی مہم چلا رہے تھے اور کوشاں تھے کہ ان کے سالے صاحب ہی لندن کے میئر بنیں۔ خان صاحب کے بیٹوں کی تربیت بھی جمائمہ صاحبہ فرما رہی ہیں۔ یہود کی شریعت کے مطابق اگر کسی کی ماں یہودی ہو تو ایسے بچے کو یہودی ہی تسلیم کیا جاتا ہے اور اسرائیل کے آئین کے مطابق ایسا ہر انسان جس کی ماں یہودی ہو (چاہے اس کا مذہب کچھ بھی ہو) اسرائیل کی شہریت کا حقدار ہوتا ہے۔

اس پورے تناظر میں باآسانی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ عمران خان صاحب کی کامیابی پر جمائمہ صاحبہ کن وعدوں کی یاد انہیں دلا رہی تھیں۔ وہ وعدے جو خان صاحب نے پاکستانی عوام سے کیے تھے؟ یا وہ وعدے جو وہ World Jewry سے کر آئے تھے؟ پھر جمائمہ صاحبہ آسیہ بی بی کے معاملے پر ٹوئٹ کرتی پائی گئیں اور اس سے کچھ دن قبل ہی ایک اسرائیلی صحافی کے مطابق ایک اسرائیلی جہاز پاکستان آیا اور دس گھنٹے قیام کر کے گیا۔ واقعی جمائمہ گولڈ اسمتھ کے سابق شوہر سے صہیونیوں کو بھی بڑی امیدیں ہیں اور ممکنہ طور پر اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کر بھی لیا تو بیچارے غریب مولوی ہی چند دن سڑکوں پر نکلیں گے اور پھر وہ بھی ٹھنڈے ہو کر بیٹھ جائیں گے اور تحریک انصاف کے سارے حامی سماجی میڈیا پر اسرائیل زندہ باد کے نعرے بلند کر کے اسرائیل کے حق میں قصائد پوسٹ کریں گے۔

واقعی مسلمان کا اتنا زوال ہو گیا کہ قبلہ اول صہیونیوں نے چھین لیا اور مسلم خاموش تماشائی بنے رہے۔ ٹھس اور پھسپھسی جنگیں لڑیں اور ہاریں اور کمال بے حمیتی سے اسرائیل کی ڈاکو ریاست اور تاریخ کی سب سے بڑی Land Grabbing کو تسلیم کر لیا اور ان تسلیم کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل ہوا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).