درویش، عورت اور خدا


محترمہ و معظمہ و مکرمہ جنابہ مریم صاحبہ!

جب لاہور میں رابعہ الربا نے مجھے بتایا کہ ایک فنکارہ مریم مجھ سے ملنا چاہتی ہیں تو میں نے کہا ’بصد شوق‘ ۔ چنانچہ اپنی بہن عنبر کے ہاں آپ سے ملاقات ہوئی اور مختلف موضوعات پر تبادلہِ خیال ہوا۔ آپ نے بڑی اپنائیت سے اپنی پینٹنگ کا تحفہ دیا جو اب کینیڈا میں درویش کی کٹیا کی رونق بڑھا رہا ہے۔

آپ نے اپنے کالم ’درویش سے ملاقات‘ میں چند نظریاتی اور ذاتی سوال پوچھے ہیں۔ چونکہ ان سوالات سے خلوص کی خوشبو آ رہی ہے اس لیے میں ان کے مختصر جواب دینا چاہتا ہوں کیونکہ ہو سکتا ہے وہ سوال میرے اور دوست اور قارئین بھی پوچھنا چاہتے ہوں لیکن بوجوہ پوچھ نہ پاتے ہوں۔

’درویشوں کا ڈیرا‘ دو کرداروں کے درمیان زندگی کے مختلف موضوعات پر ایک سنجیدہ مکالمہ ہے جو پچاس خواب ناموں پر پھیلا ہوا ہے۔ رابعہ کا تعارف تیسرے خواب نامے میں اس طرح ہوتا ہے

’رابعہ کوئی نام نہیں بس اسلامی متھ کا ایک کردار ہے۔ ایک ان دیکھا جنون ہے‘ ایک کٹھن امتحان ہے ’ایک آزمائش ہے۔ اک سوال ہے‘ اک ناقالِ یقین یقین ہے ’اک استعارہ ہے بے لوث محبت کا۔ آگ اور پانی کی اک جمالی و جلالی تفسیر ہے‘ ۔

درویش کا تعارف چوتھے خواب نامے میں ان الفاط میں ہوتا ہے

’درویش سچ کی تلاش میں نکلا ہوا مسافر بھی ہے اور ایک سوچ‘ ایک آرزو ’ایک آدرش اور ایک خواب بھی۔ آشتی کی سوچ‘ انسان دوستی کی آرزو ’انسانی ارتقا کا آدرش اور پرامن معاشرے کا خواب‘

رابعہ اور درویش کا مکالمہ آپ بیتی بھی ہے جگ بیتی ہے جو نفسیاتی بھی ہے سماجی بھی ’انفرادی بھی ہے اجتماعی بھی‘ تاریخی بھی ہے دیومالائی بھی۔ جب آپ وہ کتاب پڑھیں گی تو اس کی بہت سی پرتوں سے روشناس ہوں گی۔

آپ کا یہ تاثر درست ہے کہ میں دوستی کے رشتے کو سب رشتوں سے زیادہ معتبر و محترم سمجھتا ہوں وہ دوستی چاہے دو مردوں کی ہو ’دو عورتوں کی ہے یا ایک مرد اور ایک عورت کی ہو۔ میری نگاہ میں دوستی کے رشتے میں بے پناہ خلوص‘ محبت اور اپنائیت پائی جاتی ہے۔ میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ مجھ پر دوستوں کی محبت کی اتنی بارش ہوئی کہ میں اندر تک بھیگ گیاْ

جہاں تک دہریہ درویش کے تصور کا تعلق ہے میں نے درویشوں کے ڈیرے کے پہلے صفحے پر آئن سٹائن کا یہ قول درج کیا ہے

’جو سائنسدان سچ کی تلاش میں سنجیدہ ہوتے ہیں وہ روایتی مذہب اور خدا سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ بعض روایتی لوگ انہیں دہریہ سمجھتے ہیں اور بعض درویش۔ وہ نہیں جانتے کہ ایسے سچے سائنسدان بیک وقت دہریہ بھی ہوتے ہیں اور درویش بھی۔ ‘

میری نگاہ میں درویش سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر ہیں ان کا کسی روایتی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دولت اور شہرت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ تاریخ میں روحانی درویش بھی پائے گئے ہیں اور دہریہ درویش بھی۔ روحانی درویشوں میں مولانا رومی ’بلھے شاہ‘ ولیم بلیک ’والٹ وٹمین‘ رابندرا ناتھ ٹیگور اور کبیر داس شامل ہیں جبکہ دہریہ درویشوں کا سلسلہ سقراط سے جا ملتا ہے۔ سقراط کو اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ ان پر دو الزام تھے ایک یہ کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ یونان کے خداؤں کو نہیں مانتے۔

سقراط کی روایت کے پیروکار ہر صدی ’ہر عہد اور ہر دور میں پائے گئے۔ پچھلی دو صدیوں میں ان دہریہ درویشوں کی مثالوں میں ماہرِ حیاتیات چالز ڈارون بھی شامل تھے اور ماہرِ نفسیات سگمند فرائڈ بھی‘ ماہر سماجیات کارل ماکس بھی شامل تھے اور ماہرِ فلکیات سٹیون ہاکنگ بھی۔ ان درویشوں اور دانشوروں نے سائنس کی ترقی اور انسانی شعور کے ارتقا میں اہم کردار کیا۔

آپ نے اپنے کالم میں میری ذاتی اور رومانی زندگی کے بارے میں سوال کیا ہے۔ آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ بے ٹی ڈیوس پچیس سال میری دوست تھیں۔ اس دوران انہوں نے رومینیا سے دو ہفتے کی بچی ایڈرئینا کو ADOPT کیا تھا۔ پھر ہم تیرہ سال کے لیے محبوب بن گئے اور ایڈرئینا کو ہم دونوں نے بیٹی کی طرح پالا پوسا۔ دو سال پیشتر جب بے ٹی ڈیوس اور میں باہمی رضامندی سے جدا ہوئے تو میں نے ایڈرئینا سے پوچھا ’بٹیا آپ میرے ساتھ رہیں گی یا امی کے ساتھ؟

’ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا‘ آپ کے ساتھ ’میں نے بے ٹی کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگیں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ’چنانچہ اب میں ایک تین بیڈ روم کے کونڈو میں رہتا ہوں ایک کمرہ ایڈرئینا کا ہے ایک میرا اور ایک کمرہ مہمانوں کے لیے ہے۔ میری خوش قسمتی کہ بے ٹی اور میں اب دوبارہ دوست ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔

محتترمہ مریم صاحبہ!

میرا فلسفہ انسان دوستی ہے۔ میں ایک ڈاکٹر اور رائٹر کی حیثیت سے خدمتِ خلق کرتا ہوں۔ میری تحریریں دکھی انسانیت کے نام میرے محبت نامے ہیں۔ میں مذہبی انسان نہیں لیکن انسانیت کی خدمت عبادت کی طرح کرتا ہوں۔

میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے دوستوں کا ایک حلقہ بنایا ہے جو فیملی آف دی ہارٹ کہلاتا ہے چونکہ آپ بھی اک صاحبِ دل فنکار ہیں اس لیے میں آپ کو بھی اس دل والوں کے خاندان میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

اب ایک درویش ایک فنکار سے اجازت چاہتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail