منظور پشتین: دم غنیمت ہے


پاکستان میں مزاحمتی سیاست آخری ہچکیاں لے رہی تھی جب پیپلزپارٹی جیسی جمہوریت کی علم بردار جماعت نے بھی ہتھیار ڈال دیے اور ایک صف میں کھڑی ہو گئی۔ بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ یعنی میدان بالکل خالی کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد نواز شریف ہی واحد لیڈر تھے جنہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا کہ یہ چنگاری بھی شعلہ بن سکتی ہے۔ وقت ضائع کیے بغیر بجھا دی گئی ہے۔ نواز شریف کے اپنے بھائی شہباز شریف نے مسلم لیگ کو چاروں شانے چت کر کے اقتدار کی راہ ہموار کر لی اور اپوزیشن کا عہدہ سنبھال لیا۔

نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ جیل کے اندر نواز شریف بھاری ہے نہ جیل کے باہر وزن باقی رہے گا۔ مطلب مسلم لیگی سیاست نواز شریف پر نہیں چلے گی کیوں کہ مسلم لیگ ایم پی ایز اور ایم این ایز کی جماعت ہے۔ کارکن آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ وہ نہ مزاحمت کار ہیں اور نہ مصالحت کار ہیں۔ حالات کے تیور دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے کارکن اپنا سیاسی کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔ قیادت کے فیصلوں پر مزاحمت دکھاتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں۔

پیپلز پارٹی اقتدار میں ہو تو کارکن الگ رہتے ہیں۔ اقتدار سے باہر تو ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف میں ابھی کارکنوں کی کوئی شناخت نہیں بن سکی ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے بن بھی نہ پائے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی یہی مسئلہ در پیش رہا ہے کہ اقتدار نے کارکنوں کو پارٹی سے دور کر دیا ہے۔ اب وہ مزاحمت کی خو رکھنے والے پیپلز پارٹی کے کارکن خال خال ہی ملتے ہیں۔ بلاول کے آدرش نے کارکنوں کو کچھ متوجہ کیا ہے۔ لیکن ابھی سفر باقی ہے۔

بلاول ابھی خود سیکھ رہا ہے۔ اس کے باوجود پارلیمانی سیاست میں بلاول فرنٹ پر ہے۔ قیادت کی بحرانی کیفیت میں بلاول ایک امید کی کرن ضرور بنتے جا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظربھٹو کی مزاحمتی سیاست کی جھلک بلاول میں نظر آتی ہے۔ بصورت دیگرے سیاست مزاحمت کیا مصالحت سے بھی آگے نکل کر قیصدہ گوئی اور خوشامد تک محدود رہ گئی ہے۔ دوسر ے معانوں میں سیاست ختم ہو چکی ہے۔ سیاست صرف مزاحمت ہوتی ہے۔ اقتدار کی بھیک مانگنے کا نام سیاست نہیں ہوتی۔

اب تو اقتدار کی بھیک سے کچھ حصہ مانگنے کے لئے نام نہاد پارٹیاں، گروپ اور اس عہد کے غیر سیاسی لیڈر اپنے گلے میں قیمت کے کارڈ پہنے خود کی سربازار بولیاں لگوا رہے ہیں۔ یہی نہیں ظلم و زیادتی کے خلاف بولنے اور شکایت کرنے والوں کو ملک دشمن اور غدار کہہ کر اپنی قیمت بڑھاتے ہیں خود کو محب الوطن ثابت کرنے کے جتن کرتے ہیں۔ سیاست کا یہ معیار ٹھہرا ہے۔ حب الوطنی اب فوج پرستی کی کسوٹی پہ پرکھی جانے لگی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ضیا آمریت میں چلن خوب تھا۔ سیاستدان کیا صحافی، علما، سماجی کارکن سب ایک رنگ میں رنگے جانے کو بے تاب رہتے تھے۔

سنا ہے اس وقت میاں نواز شریف سبقت لے جانے میں کامیاب تھے۔ تحریک انصاف اور عمران خان ہمہ یاراں میں وہ خوبیاں نہیں ہیں۔ جس پر میاں نواز شریف ید طولیٰ رکھتے تھے۔ نواز شریف استاد ٹھہرے مگر استاد کے ساتھ اتنی بھی مخاصمت کیا کرنی۔ غلطی پر نادم ہوں شاید، خبرتو لیجیے صاحب۔ ذرا سوچیے! دوسری بار جیل میں ہیں مگر احتجاج ایک بار بھی نہیں کیا ہے۔ کوئی مظاہرہ نہیں ہے۔ مزاحمتی تحریک چلانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ مکمل ٹھنڈ پروگرام ہے۔ سیاست گئی اب تیل لینے۔ بلاول کا ابھی لمبا پروگرام ہے۔ دوسرا آصف زرداری ابھی زندہ ہیں۔ مفاہمت کے بادشاہ۔ فکر کاہے کی ہے۔ پارلیمانی سیاست سے باہر دیکھا جائے تو ماسوائے منظور پشتین کے دور دور تک مزاحمت کی سیاست کی رمق باقی نہیں رہی۔ دم غینمت ہے کہ پشتون نوجوان نے جان ہتھیلی پر رکھ کرمزاحمتی سیاست کے خارزار میں قدم رکھا ہے۔ وگرنہ ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز خوشامد اور چاپلوسی کے نقار خانوں میں دب جاتی۔ نوجوان منظور پشتین بھگت سنگھ کا پرتو ہے جس نے بلاول کو بھی حوصلہ بخشا ہے۔ پاکستان کی مزاحمتی سیاست میں پھر جان ڈال دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).