تقابل اپنے ایسوں کے ساتھ


میں قریب ایک ہفتے سے اس شہر میں ہوں جہاں اس جہان میں آنا میرا مقدر ٹھہرا تھا۔ جب میں گھر کے صحن سے آسمان کی جانب دیکھتا ہوں تب مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں کہیں گیا ہی نہیں تھا، نہ پڑھنے کی خاطر، نہ ملک کے اندر کہیں گھوما نہ ملک سے باہر کبھی گیا، ہمیشہ یہیں رہا ہوں۔ اس کے برعکس میں جب دروازہ کھول کر گلی میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ بیت گیا مگر نالیوں میں وہی تعفن ہے۔ پانچ برس کی عمر میں ناک پر ہاتھ رکھے گھر کے در سے سڑک تک کے تیس پینتیس قدم بھاگ کرکے عبور کرتا تھا اب ناک پر رومال رکھنا پڑتا ہے۔

اس بار تو ایک نیا مظہر دیکھنے کو ملا۔ گھر کے غسل خانے اور برتن دھونے والی چوکی سے پانی گھر سے باہر لے جانے والی نالی کو اینٹیں لگا کر بند کیا گیا تھا۔ صابن ملا پانی برآمدے میں پھیل رہا تھا۔ جب پوچھا کہ ایسا کیوں ہے تو بتایا گیا کہ باہر کی نالیوں میں پانی رکا ہوا ہے۔ شکر ہے کہ گھر میں نسبتاً صاف پانی پھیلا ہوا ہے۔ اگر بند نہ کرتے تو محلے کا فضلہ ملا پانی گھر میں گھس آتا۔ ہائیں کیوں بھئی، کوئی بارش تو ہو نہیں رہی کہ پانی زیادہ ہو کر گندگی کے ساتھ گھر میں گھس آئے۔ پتہ چلا کہ نہ صرف باہر کی سڑک بہت اونچی کر دی گئی ہے بلکہ نالیوں کا لیول ویسے کا ویسا ہے جیسے پچاس برس پہلے تھا۔ اس پر مستزاد پلاسٹک کے لفافے یعنی شاپنگ بیگز اور لوگوں کا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود حفظان صحت سے متعلق جہل۔ لفافے نالیاں بلاک کر دیتے ہیں۔

نالیوں کی صفائی کے لیے شہر کے ایم پی اے کو فون کیا گیا۔ پتہ نہیں کہاں کہاں پلاسٹک بیگز پھنسے ہوئے تھے جو بدرووں کا پانی چل کے نہیں دے رہا تھا بلکہ آج تو جب مجھے باہر نکلنا پڑا تو عین ایم پی اے کے گھر کے سامنے سیپٹک ٹینکوں سے انتہائی بدبودار پانی ابل ابل کے سڑک کو جل تھل کر چکا تھا۔ کہیں شام تک جا کرکے اس اذیت سے نجات مل پائی یعنی عارضی نجات۔

اگر گھروں میں گندا پانی آنے سے روکنا ہے تو گھروں میں بھراؤ کروایا جانا ہوگا۔ چھتیں اونچی کرونی ہوں گی۔ فرش اور دروازے بھی ظاہر اونچے کروانے ہوں گے۔ اس طرح گھر تو بچ جائیں گے مگر گلی میں پانی بھر جائے گا۔ ایسا ایک بار جی ٹی روڈ مریدکے میں ہوتا دیکھ چکا ہوں کہ سڑک بہت اونچی ہو گئی تھی اور سیوریج نیچے۔ سیوریج نئی ڈالنی پڑی تھی اور جو فارمولا بتایا گیا ہے، گھروں ‌کے لیے وہی اختیار کرنا پڑا تھا۔ وہاں تو چوہدریوں کی کوٹھیاں تھیں انہوں نے اخراجات برداشت کر لیے تھے مگر یہاں تو ہم جیسے عام لوگ رہائش پذیر ہیں۔

یہ سرکار والے جب بھی کچھ نیا کرتے ہیں تو کیا کوئی پالیسی بھی بناتے ہیں یا ساری تعمیراتی پالیسیاں شہروں کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں، بحریہ ٹاؤنز اور دوسرے پوش علاقوں کے لیے ہیں؟ لاہور ہو یا کراچی آج جب اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ تمام ہونے کے نزدیک ہے، گندے نالے موجود ہیں جن سے ایسا تعفن اٹھتا ہے کہ الاماں جبکہ لوگ ان کے نزدیک بنے ریستورانوں میں بدبو سے بے نیاز بیٹھے کھانا تناول فرما رہے ہوتے ہیں۔ میں نے ماسکو، لندن، نیویارک، نیوجرسی، پیرس، برلن، وارسا، برسلز، ایمسٹرڈیم، دبئی، مکہ، مدینہ میں کہیں گندے نالے نہیں دیکھے۔ کیا ہمارے شہروں میں ساری کی ساری سیوریج زیر زمین نہیں کی جا سکتی؟

کیا قصبوں میں سیوریج کے نظام کو بہتر نہیں کیا جا سکتا؟ کیا لوگوں کو پلاسٹک کے لفافے استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا؟ اگر فوری طور پر پلاسٹک بیگز کے پلانٹس بند کرنا ممکن نہ ہو تو کیا عارضی طور پر قصبوں میں بڑے ڈسٹ بن رکھ کے لوگوں کو کوڑا ان میں پھینکنے کی جانب راغب نہیں کیا جا سکتا؟ شاید نہ کیا جا سکتا ہو کیونکہ مجھے آج ایک رورل ہیلتھ سنٹر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کا سارا ماحول ہی حفظان صحت کے اصولوں کے منافی تھا۔ ڈاکٹروں کے کمرے بھی بس یونہی صاف کہے جا سکتے تھے۔

مجھے ایک ڈاکٹر کو کہنا پڑا کہ آپ علاج کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نہا کر اور صاف کپڑے پہن کر ہسپتال آنے کی نصیحت بھی کیا کریں۔ نوجوان ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کی تجویز معقول ہے مگر اس پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ جیسے ابھی جو مریض آیا تھا وہ تعمیراتی مزدوری کرتے کرتے فراغت کے دوران میرے پاس آ گیا، اگر اسے گھر جا کے نہانا اور کپڑے بدلنا ہوتے تو وہ شاید پھر نہ آ سکتا۔ میرا موقف یہ تھا کہ اگر اس کو ضرورت ہوتی تو آ جاتا۔

لوگوں کو مجھ سے گلہ رہتا ہے کہ میں ‌ چونکہ بیرون ملک رہتا ہوں اور ان کے خیال میں میں نے وہاں سے تعلیم حاصل کی اور کمایا بھی، اگرچہ ان کے یہ دونوں اندازے یکسر غلط ہیں، اس لیے مجھے پاکستان میں نقص ہی نقص دکھائی دیتے ہیں، کچھ بھی اچھا دکھائی نہیں دیتا۔

جبکہ مجھے اچھا دکھائی دیتا ہے یعنی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں، بحریہ ٹاؤنز اور پوش علاقے جہاں نہ چنگچی ہیں نہ بدروویں، نہ بارش کا پانی کھڑا ہوتا ہے، نہ تعفن زدہ پانی جمع ہوتا ہے مگر یہ تو پاکستان کی آبادی کا اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد ہے شاید۔ اسی لیے ان کا تقابل میں نے یورپ کے شہروں سے کیا۔ البتہ باقی ملک فی الحال افغانستان، صومالیہ اور ملاوی سے بہتر ہے کہ خانہ جنگی نہیں ہے، متعدی امراض وبا کی صورت اختیار نہیں کرتیں وغیرہ وغیرہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).