برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر


نیوزی لینڈ کی مسجدوں میں مسلمانوں پہ اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کرنے پر علامہ اقبال کی نظم ’شکوہ‘ کا مصرع یاد آ گیا کہ ”برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر“۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان شہید اور زخمی ہونے والے مسلمانوں کا کیا قصور تھا جن کو نشانہ بنایا گیا۔ صرف اتنا کہ وہ اپنی عبادت گاہ میں عبادت میں مصروف تھے۔ حالانکہ کہ ساری دنیا کے مذاہب کے افراد کو ان کی عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہے۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام اسلامی لشکر بھیجتے تو انہیں تاکید کرتے کہ تم نے بچوں کو قتل نہیں کرنا، تم نے عورتوں کو قتل نہیں کرنا، تم نے بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا، تم نے عورتوں کو قتل نہیں کرنا، تم نے بے گناہوں کو قتل نہیں کرنا۔ فصلوں اور درختوں کو نہ جلانا، جو تم سے نہ لڑیں ان سے نہ لڑنا اور لاشوں کا مسخ نہ کرنا۔

جس مذہب کی تعلیمات میں ایک بے گناہ کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ اس سانحے میں ان شہید اور زخمی ہونے والے مسلمانوں کا کیا قصور تھا جن کو نشانہ بنایا گیا۔ جس مذہب کی تعلیمات میں امن آشتی کا درس ہے۔ جس مذہب کے تعلیمات میں بے گناہوں کے قتل کی ممانعت کی گئی ہے۔ اسی مذہب کے پیروکاروں کو بے گناہ قتل کیا جا رہا ہے اور ”کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں“ کی عملی تصویر بن رہے ہیں۔

علامہ اقبال بیسویں صدی کے اوائل میں امت مسئلہ کے حالات پر سخت نالاں تھے جس کا اظہار وہ اپنی طویل نظموں ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ میں کرتے ہیں۔ مگر اب صدی گزرنے کے بعد امت مسلمہ کے حالات مزید ابتر ہوتے نظر آتے ہیں۔ نائن الیون کا نزلہ بھی امت مسلمہ ہی پہ گرا۔ افغانستان ہو یا عراق، کشیمر ہو یا فلسطین، برما ہو یا چیچنیا، بلغاریہ ہر جگہ برق بے چارے مسلمانوں ہی پہ گرتی ہے۔ مگر افسوس کہ پھر مسلمانوں ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھی کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کہ اس مذہب کا دہشت گردی سے سرے ہی سے تعلق نہیں۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

نیوزی لینڈ کی مساجد کے سانحے میں آسٹریلیائی نژاد دہشت گرد ملوث ہو یا کوئی اور مگر المیہ یہ ہے کہ شہادتیں اور زخمی مسلمان ہوئے۔ مثاثر مسلمان ہوئے۔ اگر باطل یہ سمجھے کہ اس طرح کے اقدامات سے وہ مذہب اسلام کے پیروکاوں کو دبا اور مٹا لیں گے تو یہ محض ان کی بھول ہے۔ بقول علامہ اقبال:

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

آخر کب تک مسلمان اس طرح متاثر ہوتے رہیں گے؟ یہ ظلم کے بادل اس امت سے کب چھٹیں گے؟ یہ امتحاں کب ختم ہوں گے؟ امت مسلمہ کا ہر فرد یقیناً اس وقت امت مسلمہ پر گرنے والی بجلیوں پر نالاں ہے۔ اللہ تعالی امت مسلمہ کو اپنے امان میں رکھے۔ بقول علامہ اقبال:

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

مور بے مایہ کو ہم دوش سلیماں کر دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).