نجی تعلیمی اداروں کا تعلیمی نظام، بد حالی کا شکار کیوں؟


شب و روز جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو اس دنیا کے عجیب و غریب منظر آنکھوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ انسانوں کے ناقابل برداشت اور افسوسناک رویے سوچ کی تنگ گلی میں قید ہو جاتے ہیں۔ جو چاہتے ہوئے بھی اس گلی کی قید سے آزاد نہیں ہو پاتے۔ دور ایسا آ چکا ہے کہ خلوص کا فقدان ہے۔ وہ شخص اس دور میں خوش قسمت ترین ہے، جسے مخلص محسنوں، رفیقوں، اور دوستوں کا ساتھ حاصل ہوا۔ میں نے جب بھی اپنے ماضی کی کتاب کو کھولا، میرے سامنے حادثات واقعات کے بیسیوں پرندے چہچہانے لگے۔ موجودہ دور میں مخلصی کو انسانیت کا زیور گردانتا ہوں۔

کچھ دن قبل اپنی بھتیجی کا امتحانی نتیجہ لینے اسکول گیا۔ سو رزلٹ کارڈ لیا اور گھر چلا آیا۔ گھر پہنچ کر دماغ سوچ کی گہری کھائی میں جا گرا۔ ماضی کے جھروکوں سے کئی واقعات اور مشاہدات خیالوں کے گرد گھومنے لگے۔ یاد آیا سال دو سال پہلے ایک اسکول میں پڑھاتا تھا۔ پرچوں کی جانچ پڑتال اور نتائج کو حتمی شکل دے دی گئی تھی۔ نتائج کی تیاری کے بعد جب نتائج انتظامیہ کے حوالے کیے جا چکے تو بعد ازاں کئی پوزیشن ہولڈر بچوں کے نتائج میں تبدیلی کر دی گئی۔ امتیازی نمبر لینے والوں کو پوزیشن پر لانے کے لیے جوڑ توڑ کیا گیا۔ بالآخر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہم اتنے ہی حیران ہوئے جتنا کوئی شخص گدھے کے سر پر سینگ دیکھ کر ہوتا ہے۔

اول دوم اور سوم آنے والے بچے نچلے درجوں پر تنزلی کے ساتھ اور کئی امتیازی نمبر حاصل کرنے والوں کو اول، دوم، سوم کی مسند پر لا بٹھایا تھا۔ جعل سازی ایسی کی گئی تھی جیسے نقلی نوٹ کو بنانے میں کی جاتی ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ بچے اسکول کے بعد ٹیوشن اسکول سے پڑھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں پوزیشن دینا تعلیمی ادارے کی مجبوری ہے۔ چونکہ اس بابت ساری پوچھ گچھ انہی سے ہو گی۔ اس احتساب سے بچنے کے لیے جس طرح شارٹ کٹ اپنایا جاتا ہے وہ یہ طریقہ کار کہلاتا ہے۔

ایک اور جگہ کا واقعہ آپ کے گوش گزار کرو کہ دوست نے کہا کہ وہ ایک تعلیمی ادارے میں بطور استاد اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ امتحانات کے دوران ٹیچر نے مخصوص بچوں کو رہنمائی کی صورت میں پورے پورے پرچے لکھنے کی کوشش شروع کر دی۔ جب انویجیلیشن کے دوران ہمارے دوست نے انہیں باہر جانے کو کہا تو انہوں نے ان پر بچوں کو نقل کرانے کا الزام لگا دیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ جن بچوں کو خاص پروٹوکول کے ساتھ رہنمائی بذریعہ نقل دی جا رہی تھی وہ بچے ان کے پاس ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔

نتائج میں تبدیلی کے ممکنہ محرکات کیا ہوتے ہیں۔

نتائج میں تبدیلی ایسے ہی ہوتی ہے جیسے دھاندلی کر کے انتخابات میں نتائج کو تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات ٹیچر اپنے ٹیوشن کے بچوں کو تو اسکول تعلیمی ادارے اپنے ڈے کئیر کے بچوں کو خاص منصوبے کے تحت دیتے ہیں۔ جس گھر سے زیادہ بچے آ رہے ہوں، انہیں خوش کرنے کے لیے بھی زبردستی توڑ جوڑ کر کہ پوزیشن پر لایا جاتا ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کے نتائج اچھے نہ آنے پر ان کا احتساب کرتے ہیں۔ ان والدین کا منہ بند کرنے کے لیے بھی انہیں پوزیشن کا حقدار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ وہ بچے جو تعلیمی ادارے کو چھوڑ کر دوسرے میں جانا چاہتے ہیں اس روک تھام کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔

بقول ایک دوست کے، کہ وہ ایک مدرسے میں اسکول کے انتظامی امور کا نگران ہے۔ ایک بچہ داخلے کے لیے لایا گیا جو ایک معروف علاقے کے مشہور نجی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ اس کا آزمایشی امتحان ہوا تو چوتھی کلاس میں بٹھانے کو کہا گیا۔ جب کہ بچہ اسکول میں چھٹی کلاس میں دوسری پوزیشن لے کر آیا تھا۔ والد سے جب یہ دل چسپ صورت احوال دریافت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ میرے بچے کی پوزیشن آئی تو میں خوش ہو گیا۔ گھر آیا تو خیال آیا اس کی انگریزی اردو کی ریڈنگ سن لی جائے۔ جب ریڈنگ سنی تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ میرے بچے کو ریڈنگ ہی نہیں آ رہی۔ میں نے فائل اٹھائی جس تعلیمی ادارے میں میرا بچہ پہلے زیر تعلیم تھا۔ وہاں گیا ان کے سامنے معاملہ رکھا تو وہ میری بات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ میرا بچہ وہاں صبح سے لے کر شام تک پڑھتا تھا۔ اس کے باوجود اس کی تعلیمی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ میں نے اسی لیے تعلیمی ادارہ تبدیل کیا، تا کہ بچے کا مستقبل تاب ناک ہو سکے۔

ہمارا تعلیمی نظام کب کیسے ٹھیک ہو گا۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں اصلاحات نافذ کی جائیں، تا کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).