نشئی اور کشکول


سورج غروب ہونے کو تھا۔ پیلی سنہری کرنیں کالے اور سفید بادلوں کے آوارہ ٹکڑوں سے منعکس ہو کر مزار کے گنبد پر پڑ رہی تھیں۔ ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ جنوری کے ابتدائی ایام تھے۔ جیرے کے لئے موسم کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کے اندر بہار کا موسم تھا۔ نیلے پیلے رنگ اس کی آنکھوں میں ناچ رہے تھے۔ گنبد اتنا خوبصورت لگ رہا تھا، جیسے سونے کا بنا ہو۔ سورج ڈوبتا جا رہا تھا۔ اور بادل سفید سے سیاہ ہوتے جا رہے تھے۔

یہ مزار جیرے کے گھر کے راستے میں پڑتا تھا۔ جیرا اسپتال سے فارغ ہو کر ابھی لوٹا تھا۔ آج اس نے بہت بڑا کام کیا تھا۔ اس نے ایک انسان کی جان بچائی تھی۔ اس کے سامنے ایک سائیکل والے کو گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔ اور اس نے گاڑی روکنا بھی مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کا ایک کم زور سا آدمی تھا۔ ٹکر سے اس کا سر پھٹ گیا تھا۔ وہ ایمبولینس ہی پر اسپتال چلا گیا تھا۔ اس کے پاس مزدوری کے پیسے تھے جو اس نے زخمی کی ادویات پر خرچ کر دیے۔

وہ آج اندر سے خوش تھا۔ اس نے ایک انسان کو مرنے سے بچایا تھا۔ اس کو ادویات لے کر دی تھیں۔ اس کو کھانا کھلایا تھا۔ زخمی شخص نے اسے ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔ وہ دعائیں اسے ہوا میں اڑا رہی تھیں۔ ہیروئین اور کوکین کے نشے کے بعد نیکی کا نشہ سب سے بڑا نشہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی انسان کی مدد کر کے یا کسی بھوکے کو کھانا کھلا کے انسان اپنے آپ کو رب سمجھنے لگتا ہے۔ جیرے پر یہی کیفیت طاری تھی۔

جیرے کی عمر تیس بتیس سال ہو گی۔ گندمی رنگ اور کالے بال جو اکثر بڑھے رہتے کہ ان کی تراش خراش کے پیسے نہ ہوتے۔ اس کی پسلیاں آسانی سے گنی جا سکتی تھیں۔ بھوک جیرے کی مستقل مہمان رہتی۔ اس نے کبھی ڈھنگ سے کوئی کام نہ کیا۔ وہ سفیدی اور رنگ روغن کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا ہیلپر تھا جہاں ہفتے میں دو تین بار اس کی دیہاڑی لگ جاتی۔ اس کی ایک بیوی اور دو بیٹیاں تھیں۔ اس کی بیوی کسی گھر کی ماسی تھی۔ برتن صاف کرنے اور گھر کی صفائی ستھرائی پر مامور تھی۔

اس کی بچیاں چھوٹی تھیں۔ غربت اور بھوک اسے بے چین کیے رکھتی۔ اسی بے چینی کے عالم میں ایک دن اس نے اپنے ساتھی مزدور کے ساتھ مل کر وہ سیگرٹ پی لیا جس نے اسے دکھوں سے عارضی نجات دلا دی۔ اس کو شانتی مل گئی۔ وہ سکون جس کا وہ عرصے سے متلاشی تھا ؛آسانی سے مل گیا۔ جیرا اس عارضی نجات کے بھنور میں پھنستا چلا گیا۔ اہستہ آہستہ غربت اور نشے نے اسے پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا۔

وہ دو دن سے ٹوٹا ہوا تھا۔ پیسے نہیں تھے تو نشہ کہاں سے ملتا۔ آج اسے کام ملا تو ٹھیکیدار نے پہلے اسے وہی سیگرٹ پلایا تھاحسے پی کر، وہ شیر ہو جایا کرتا تھا۔ نہ جانے اچانک اتنی طاقت اس کے جسم میں کیسے بھر جاتی تھی۔ کام سے فارغ ہو کر نکلا ہی تھا کہ اس کے سامنے وہ حادثہ ہو گیا۔ کچھ نشے کا اثر تھا کچھ نیکی کا۔ اس نے سوچا وہ نہ ہوتا تو وہ اجنبی حادثے کے باعث مر چکا ہوتا۔

سرد ہوا کے تند و تیز جھونکے نے اس کے خیالات کا تانا بانا توڑ کر رکھ دیا۔ یخ بستہ ہوا اس کی پسلیوں کو چیرے دے رہی تھی۔ اس نے سوچا جلدی سے گھر پہنچنا چاہیے۔ وہ گھر کی طرف چل پڑا۔ آسمان پر سیاہی پوری طرح پھیل چکی تھی۔ بادلوں نے پوری طرح آسمان کو گھیرا ہوا تھا۔ اچانک بجلی چمکی اور بارش شروع ہو گئی۔ جیرے نے بھاگ کر مزار کے چھجے کے نیچے پناہ لی۔ بارش کا رخ دوسری طرف تھا اس لئے وہ بھیگنے سے بچ رہا تھا۔ اس نے سوچا بارش ابھی رک جائے گی اور وہ گھر پہنچ جائے گا۔

اسے اپنی بیٹی راشدہ کا خیال آیا، جو کئی دنوں سے بیمار تھی۔ اس کی بیماری کی سمجھ ہی نہ آتی تھی۔ روز شام کو تیز بخار چڑھتا۔ اس کو کپکپی کے ساتھ سردی لگتی۔ اس کی بیوی اس کے اوپر رضائی ڈال دیتی۔ کچھ ہی دیر میں پسینا آتا اور بخار اتر جاتا۔ اور وہ کھیلنے لگ جاتی۔ اگلے دن پھر یہی ہوتا۔ باری کا بخار بن گیا تھا۔ جیرے کی بیوی ایک پیر سے باری کے بخار کا تعویذ بھی لے آئی تھی لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ پھر ایک دن اسے دورے پڑنے لگ گئے۔

جیرے کی بیوی اسے سرکاری اسپتال لے گئی۔ اسے دورے پڑنے تو بند ہو گئے مگر اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس کا زرد چہرہ جیرے کی نظر میں گہرا زرد ہوتا جا رہا تھا۔ بے دھیانی میں جیرا گھر کی طرف چل پڑا۔ بارش کی تیز پھوار اس کے جسم کو گیلا کر گئی۔ اس کا پاوں کیچڑ پر پڑا تو وہ نیچے گر گیا۔ بارش نے اسے اچھی طرح گیلا کر دیا۔ وہ واپس چھجے کے نیچے آ گیا اور اپنے گیلے بال نچوڑنے لگا۔

باش تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ چھجے کے نیچے تھا لیکن تھوڑی تھوڑی دیر میں تیز ہوا کے جھونکے اور بارش کی پھوار اس کے جسم پر پڑ رہی تھی۔ اولے پڑنے سے ہوا اور ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ بازار خالی ہو گیا تھا۔ مزار کا احاطہ ویران تھا اور جیرا اکیلا۔ اس کی کمر میں زور کی ٹیس اٹھی۔ اسے کمر درد کی پرانی شکایت تھی۔ سردی اس درد کی شدت میں اضافہ کر دیتی تھی۔ اس کی بیوی ایسی حالت میں اس کی کمر دبایا کرتی یا گرم پانی کی بوتل سے ٹکور کر دیا کرتی۔

نہ جانے وہ کس حال میں ہو گی۔ کھانا بھی کھایا ہو گا کہ نہیں۔ آج اسے کئی دنوں بعد کام ملا تھا۔ اس نے بیوی سے وعدہ کیا تھا واپسی پر آٹا اور دال گھی خرید کر لانے کا۔ لیکن اس نے تو سارے پیسے حادثے کے مریض پر خرچ کر دیے تھے۔ اب اس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا خالی ہاتھ گھر جا رہا تھا لیکن ایک زخمی اور ناچار شخص کی مدد کا احساس اس کو اطمینان دے رہا تھا۔ وہ پریشان بھی تھا۔ خالی ہاتھ بیوی کو کیا جواب دے گا۔ بارش اور ژالہ باری تیز ہوتی جا رہی تھی۔

برفانی ہوا نے اس کے جسم پر چھایا خمار اتار دیا تھا۔ کمر کے ساتھ ساتھ اب اس کی ٹانگوں میں بھی درد ہونے لگا تھا۔ اس نے زور سے جماہی لی اور کئی بار لی۔ اسے شدت سے بھوک کا احساس ہوا جو بڑھتا چلا گیا۔ وہ اکڑوں بیٹھ گیا کہ سردی کی شدت اور بھوک کے ساتھ اس کی کمر اور ٹانگوں میں درد شدید تر ہو گیا تھا۔ اس کے پاس گرم کپڑا بھی نہیں تھا۔ بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ چھجے کے نیچے نیچے چلنا شروع کر دیا۔

بھوک اور سردی نے اسے نڈھال کر دیا تھا اوپر سے سارے جسم میں توڑ پھوڑ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کو کپڑے کی طرح نچوڑ دیا ہو۔ اسے بری طرح سے نشے کی طلب ہو رہی تھی۔ اسے لگا کہ وہ مر جائے گا۔ سرد رات کی اس خوفناک تنہائی میں چھجے کے آخر میں اسے وہ فقیر بابا نظر آیا۔ بابے کی پشت اس کی جانب تھی۔ بابے کا کشکول اس کے دائیں جانب پڑا تھا۔ جیرا آہستہ آہستہ بابے کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے نتھنوں میں کھانے کی خوش بو آئی۔

غالبًا کشکول میں کھانا تھا۔ وہ بابا کے اور قریب ہو گیا۔ اچانک بابا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جیرے کو عجیب انداز میں اپنی طرف بڑھتے پایا۔ بابا کے ایک ہاتھ میں بہت سے نوٹ تھے۔ بابا شاید اس دن کی کمائی گن رہا تھا۔ یہ مزار اس بابا فقیر کا مستقل اڈا تھا۔ کشکول میں کھانا دیکھ کر جیرے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اسے بابا پر رشک آیا جس کے پاس کھانے کا پورا انتظام تھا۔ جیرے نے سوالیہ انداز میں بابے سے کھانا مانگا۔

سدا مانگنے والے فقیر سے شاید پہلی بار کسی نے کھانے کا سوال کیا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔ بابا ابھی جیرے کے سوال پر غور کر ہی رہا تھا کہ جیرے نے کشکول اٹھایا اور ندیدوں کی طرح کھانے پر پل پڑا۔ کشکول میں چاول تھے، اوپر گوشت کا شوربا اور دال ڈلی ہوئی تھی۔ جیرا بابا کی پروا کیے بغیر کھانا کھا رہا تھا۔ اچانک بابا کو غصّہ آیا اور اس نے جیرے کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا۔ کشکول جیرے کے ہاتھ سے نیچے گر گیا۔

وہ کشکول اٹھانے کے لئے جھکا تو بابے نے اس کی کمر پر ٹانگ چلائی۔ اس کی کمر میں پہلے ہی درد ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو زمین پر گرنے سے بچایا۔ اس کا دماغ چکرا گیا تھا۔ اسے پہلے ہی نشے کی تروڑ لگی ہوئی تھی۔ وہ ہمت کر کے اٹھا تو اسے بابا کے ہاتھ میں نوٹ نظر آئے۔ اس کے دماغ میں اپنی بیوی کا چہرہ گھوم گیا جس سے اس نے آج وعدہ کیا تھا کہ وہ آج ضرور راشن لے کر آئے گا۔ وہ کشکول اورکھانا بھول گیا۔

اس نے للچائی نظروں سے بابا کے نوٹوں سے بھرے ہاتھ کی طرف دیکھا اور اچھل کر بابا کی گردن دبوچ لی۔ اس کے ہاتھ لوہے کی طرح سخت ہوتے گئے۔ بابا نے بہت زور لگایا۔ لیکن بابا نحیف تھا۔ بابا نے جیرے کی ٹانگوں پر جھٹکے لگانے کی کوشش کی، اس کے پیٹ میں مکے مارے مگر جیرے نے اس کی گردن اس وقت تک نہیں چھوڑی جب تک اس کا جسم ڈھیلا نہیں پڑ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).