کریم کا رسوائے زمانہ اشتہار کس گمراہی کی ترغیب دے رہا ہے؟


گزشتہ دو تین دن سے ٹیکسی سروس کریم کے ایک اشتہار نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ اس اشتہار میں ایک لڑکی سولہ سنگھار کیے دلہن بنی سرخ عروسی جوڑا پہنے، غالباً بیوٹی پارلر سے بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس گمان کی وجہ یہ ہے کہ اس نے کالا چشمہ پہنا ہوا ہے اور یہ چشمہ صرف اسی صورت میں ایک دلہن پہن سکتی ہے اگر اس نے ابھی آنکھوں کا میک اپ نہ کروایا ہو۔ ساتھ لکھا ہوا ہے کہ ”اپنی شادی سے بھاگنا ہو تو کریم بائیک کرو۔ “

اس پر شور مچ گیا ہے کہ کریم ٹیکسی سروس لڑکیوں کو شادی سے بھاگنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ اور وہ بھی ایک نامحرم اور انجان لڑکے سے جڑ کر موٹرسائیکل پر بھاگنے کی۔ بجا طور پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ یہ ہماری روایت نہیں ہے۔

بات تو سو فیصد درست ہے۔ پنجاب کی ایک پانچ سو برس پرانی مشہور لوک داستان مرزا صاحباں یاد آتی ہے۔ مرزا صاحباں کے کیس میں مرزا اس لڑکی صاحباں کے لئے اجنبی نہیں تھا، رضاعی کزن تھا۔ نیز وہ کرائے پر گھوڑا نہیں چلایا کرتا تھا۔ بلکہ اس نے اپنا ذاتی گھوڑا اس مقصد کے لئے استعمال کیا تھا۔

جب صاحباں کو زبردستی طاہر خان سے بیاہا جانے لگا تو صاحباں نے مرزا کو 159 کیریکٹر کا شارٹ میسیج بھیجا۔ ”تمہیں آ کر صاحباں کے ہاتھ حنا سے رنگنے چاہئیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنی عزت نفس بچانے کے لیے، اپنے وعدوں کی پاسداری کے لیے اور سچ کی جیت کے لیے جان کی بازی لگا دو۔ “

مرزا اسے سیریس لے گیا۔ وہ عروسی جوڑے میں ملبوس صاحباں کو شادی سے عین پہلے بھگا کر لے گیا۔ لیکن وہ بھی روایتی کہانی کا خرگوش نکلا۔ آدھے راستے میں آ کر ریسٹ کرنے کا موڈ ہوا اور درخت تلے تنہا ہی سو گیا۔ خیر اسی بات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ نہ مرزا کی نیت بری تھی نہ کردار۔ مرزا نیند میں ہی پکڑا گیا اور مارا گیا۔

مرزا صاحباں کی اس مشہور رومانی داستان کو دیکھتے ہوئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ذاتی گھوڑے کی بجائے کریم بائک پر دلہن کو بھگانا نہ صرف ایک نہایت مذموم کام ہے بلکہ خلاف روایت بھی ہے، بشرطیکہ اس واردات کو پیلو جیسا کوئی گمراہ شاعر ایسی لوک داستان نہ بنا دے جسے سن کر تمام نوجوان لڑکے لڑکیاں الٹے سیدھے منصوبے بنانے لگیں۔

بہرحال بات ہو رہی تھی کریم کے اشتہار کی۔ سوال یہ ہے کہ عروسی جوڑا پہن کر سیاہ گاگلز لگانے والی یہ بد ذوق دلہن کیا کسی ماڈرن لڑکی کی آئیڈیل ہو سکتی ہے؟ ہماری رائے میں تو نہیں۔ نہ صرف اس نے بہت پرانے فیشن کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں بلکہ ان پر کالی عینک لگا کر اپنی لکس کا بالکل ہی بیڑہ غرق کر لیا ہے۔ دور جدید کی فیشن ایبل لڑکیاں اس پینڈو پنے پر ہنس ہی سکتی ہیں، اس کی تقلید نہیں کر سکتیں۔ اس لئے یہ اشتہار انہیں گمراہ نہیں کرے گا۔ پھر اس اشتہار کا ٹارگٹ آڈینس کون ہے؟

اسے جاننے کے لئے ایک مشہور تاریخی واقعہ یاد کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک بس پر ایک ماں اپنے بچے کو لئے کہیں جا رہی تھی اور اسے ٹفن سے حلوہ نکال کر کھلانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ بچہ عام بچوں کی طرح تھا جو کھانے پینے کے معاملات میں اپنے ماں باپ پر شک کیا کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ ماں سے حلوہ کھانے کو تیار نہ تھا۔ ماں نے تنگ آ کر کہا ”اگر تم نے یہ حلوہ نہ کھایا تو میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے مولوی صاحب کو کھلا دوں گی“۔

یہ تماشا کوئی پندرہ منٹ چلتا رہا۔ نہ بچہ مانا اور نہ ماں نے ہار مانی۔ آخر مولوی صاحب سے رہا نہ گیا۔ کہنے لگے ”بہن جی، جلدی فیصلہ کر لو کہ اس نافرمان اولاد کے ساتھ کیا کرنا ہے، میں پہلے ہی اپنے سٹاپ سے تین سٹاپ آگے نکل آیا ہوں۔ حلوہ بھی ٹھنڈا ہو رہا ہے“۔

تو صاحب، ہماری رائے میں کریم والوں کا ٹارگٹ دورِ جدید کی سمجھدار لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ مولوی صاحب کی طرح حلوے کی آس لگائے وہ معصوم لڑکے ہیں جو اب اس چکر میں اپنی موٹرسائیکلیں کریم سے رجسٹر کروا کر بائیک کے پائلٹ بنیں گے کہ کسی بھی لمحے ان کی قسمت جاگنے والی ہے اور وہ مرزا کی طرح سونے کی حماقت نہیں کریں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar