اسد منیر: خود کشی یا ۔۔۔ ؟


پاکستان کے اہم ترین خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق افسر اور بعد میں کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے منسلک سابق بریگیڈئیر اسد منیر نے اسلام آباد میں خودکشی کر لی ہے۔ اسد منیر کا ایک خط سوشل میڈیا پر شئیر کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میں اس لیے خودکشی کر رہا ہوں تاکہ میں ہتھکڑیاں لگنے اور میڈیا کے سامنے بے عزت ہونے سے بچ سکوں نیز میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ نیب افسران کے رویے کا نوٹس لیں“۔

جس انداز میں جناب اسد منیر کی خود کشی سامنے آئی ہے ٹھیک اسی انداز میں پاکستان میں بیشمار مرد و زن، بچیاں اور بچے خود کشی کرتے رہے ہیں یا ان کی لاشیں ان کے اپنے اپنے کمروں کے پنکھوں سے لٹکی پائی گئی ہیں۔ اس قسم کی وارداتوں کے بعد جو سب سے مشترک بات سامنے آتی رہی ہے وہ پولیس کی تفتیش کی ہے جس میں اس قسم کی ہر موت کو خود کشی سے زیادہ ”قتل“ کیے جانے کے امکانات پر اصرار کا ہوا کرتا ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ اتنی اہم شخصیت کی اس خود کشی کو اسی نقطہ نظر سے کیوں نہیں دیکھا جارہا جبکہ وہ نیب کو بھی مطلوب رہا ہو۔

فراڈ کسی بھی قسم کا ہو، کوئی تنہا انسان کبھی انجام نہیں دے سکتا۔ جب کوئی کسی جرم میں پھنس جائے اور اس کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہو تو اس کے پاس اپنی جان بچانے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے اور وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ سارے شرکائے جرم کے راز کھولے تاکہ جو بھی سزا ملے اس کا وہ تنہا ذمہ دار قرار نہ دیا جا سکے۔

ان کی لاش کے پاس سے ایک خط بھی ملا جس میں ان کا کہنا ہے کہ ”میں نے صرف پلاٹ کو بحال کرنے کی تجویز دی تھی۔ میرے خلاف چھ سال سے کوئی کیس نہیں تھا مگر اپریل 2017 سے میرے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اور میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ میں اپنی جان اس لیے دے رہا ہوں تاکہ چیف جسٹس نظام میں مثبت تبدیلی لائیں اور احتساب کے نام پر نا اہل لوگ عام عوام کی زندگیوں سے نہ کھیلیں“۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بظاہر خود کشی سے ایک دن قبل جناب اسد منیر نے پستول کے ذریعے اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن اہلیہ کے سمجھانے پر وہ اس حرکت سے باز رہے تھے۔ جب صورت حال یہاں تک پہنچی ہوئی تھی تو کیا ان کی شدید نگرانی کی ضرورت نہیں تھی؟ ان کو اس حالت میں بالکل تنہا چھوڑ دینے میں کس کی غفلت کو شمار کیا جائے گا؟

پاکستان میں جہاں بھی اس قسم کی خودکشی کا معاملہ پیش آتا ہے ان میں سے اکثر خود کشی کرنے والے خود کشی سے قبل کوئی نہ کوئی تحریر ضرور چھوڑ دیا کرتے ہیں جس میں خود کشی کر نے کی وجوہات درج ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شاید یہ بھی مقصود ہوتا ہو کہ ان کی موت کا ذمہ دار کسی اور کو قرار نہ دیا جائے لیکن پھر بھی تفتیشی ادارے ہر معاملے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے معاملات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ایسی تحریریں کسی زبردستی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں۔

اس کیس میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ اہل خانہ نے تفتیش کو آگے بڑھانے کی بجائے وہیں دبانے کی کوشش کی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تفتیشی اداروں کو پوسٹ مارٹم تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو ایک ناقابل فہم بات ہے۔ کسی کی بھی موت واقع ہوجانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ تو بے شک نہیں کیا جا سکتا لیکن کسی حد تک موت واقع ہونے کی اصل حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ پوسٹ مارٹم اسی حقیقت کو جاننے کا ایک طریقہ ہے جس کو تفتیشی ادارے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن وہ ایسا بغیر اہل خانہ کی اجازت نہیں کیا کرتے۔ اسد منیر کے اہل خانہ بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار ہوتے ہوئے بھی اگر ایسا کر رہے ہیں تو یہ بات ایک جانب تو ماورائے عقل و فہم ہے اور کسی حد تک تفتیش کی راہ میں رکاوٹ بھی۔

اسد منیر کی لاش کے پاس سے جو خط برآمد ہوا تھا اسے ان کے بھائی خالد منیر مصدقہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنے ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ ”یہ خاندان کے لیے افسوسناک دن ہے، خط مصدقہ ہے اور اسد منیر نے خود لکھا ہے اور خط کے اوپر انھوں نے اپنی لکھائی میں لکھا ہے کہ اس خط کو کس طرح پیش کیا جائے“۔

ایک اور ٹویٹ میں جو ان کی بیٹی اور اور سماجی کارکن مینا گبینہ نے کیا اس میں جنازے کا مقام اور وقت تو لکھا ہے مگر موت کی وجہ کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا تھا۔

یاد رہے کہ اسد منیر ماضی میں آئی ایس آئی کے علاوہ ملٹری انٹیلیجنس سے بھی منسلک تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹی وی پر بطور تجزیہ کار فرائض سر انجام دیتے تھے اور کالم نویس بھی تھے۔ اس کے علاوہ اسد منیر ٹوئٹر بہت باقاعدگی سے استعمال کرتے تھے اور اکثر اپنے تجزیے لکھتے تھے۔

بی بی سی رپورٹ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”واضح رہے کہ ایک روز قبل نیب نے اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے مطابق اسد منیر سمیت دیگر افراد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ریفرنس میں اسد منیر پر اور دیگر پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایک پلاٹ بحال کر دیا تھا“۔

گزشتہ چند برسوں سے نیپ اپنے اختیارات کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے طبقوں میں اضطراب پایا جارہا ہے۔ کئی نامی گرامی سیاستدان اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں لیکن ان تمام کو قانونی اور آئینی راستے اپناتے دیکھا گیا ہے۔ کسی بھی لگے الزام کو غلط قرار دینے کا یہی ایک راستہ ہوتا ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے اگر الزامات غلط ہیں تو ثابت کیا جائے اور اگر الزامات درست ہیں تو جو بھی سزا قانون میں مقرر ہے اس کے لئے تیار ہوا جائے۔ خود کشی نہ تو اسلام میں حلال ہے اور نہ ہی یہ بہادرانہ فعل ہے۔

اسد منیر جس طرح اپنے متعلق تحریر کر گئے ہیں کہ وہ تمام معاملات سے لا تعلق تھے اور ان پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تھے تو آخر ان کو نیب میں پیش ہونے میں کیا ہچکچاہٹ تھی۔ ان کی شہرت بہت محدود تھی اور اکثرلوگ ان کے نام سے بھی نا آشنا تھے۔ ان کے متعلق سوچیں جو پاکستان سے باہر بھی کروڑوں افراد میں جانے پہچانے ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات گو کہ ابھی تک عدالت میں پائے ثبوت تک نہیں پہنچے ہیں لیکن انھوں نے جیل میں رہنا تو ضرور پسند کر لیا مگر راہ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں برباد کیا۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس فعل کو یا گرفتاری دینے کو بے شرمی سے تعبیر کریں لیکن میرے نزدیک حالات کا مقابلہ کرنے سے بڑی دلیری کی بات اور کوئی بھی نہیں ہوسکتی۔

ایک صاحب نے اپنے ٹویٹ میں تحریر کیا ہے کہ اسد منیر ایک غیرت مند فوجی تھے اس لئے وہ اپنی توہین برداشت نہ کر سکے لیکن سیاستدان غیرت سے عاری ہیں اس لئے انھیں کسی بھی معاملے میں کوئی حجاب نہیں۔ ان کا یہ ٹویٹ ان کی ذہنی پسماندگی کی علامت کے علاوہ اور کچھ نہیں اور نہ ہی اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کو ختم کر لینا غیرت یا بہادری کی نشانی ہے۔ ایسا کام وہی کر تے ہیں جو حالات کو فیس نہیں کر سکتے اور ایسے ہی لوگ بہادر نہیں، بزدل کہلاتے ہیں۔ ان صاحب کو یاد ہونا چاہیے کہ جنرل اسلم بیگ جو چیف آف آرمی اسٹاف رہ چکے تھے وہ بھی اپنی صفائی میں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں پیش ہو چکے ہیں اور پرویز مشرف بھی اسی فہرست میں آتے ہیں لیکن وہ سب ابھی تک حیات ہیں لہٰذا خود کشی جیسے فعل کو غیرتمندی سے تعبیر کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔

نیب کے رویے پر وہ افراد جو اس کے شکنجے میں بری طرح کسے ہوئے ہیں مسلسل غلط کہتے آئے ہیں لیکن ان کا کہنا اس لئے مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مجرم نہیں تو ملزم تو ہیں ہی اس لئے ایسا کہنا بہت درست نہیں سمجھا جا سکتا لیکن خود سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب بھی کئی مرتبہ نیب کے اقدامات اور رویوں پر معترض رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے متعدد بار نیب کو خبردار کیا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عدالت میں طلب تو ضرور کرے لیکن کسی کو یہ احساس نہ ہونے دے کہ ان کی ہتک ہو رہی ہے مگر تاحال اُن کے اِن ریمارکس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اگر سیاستدانوں اور دیگر افراد کی شکایات کا خیال رکھا جاتا تو ممکن تھا کہ ایک غیرت کے ہاتھوں مجبور فرد جان سے نہ چلا جاتا۔

معاملہ سنجیدہ ہے اور پوری دیانتدارانہ تفتیش چاہتا ہے تاکہ خود کشی کے حقائق سامنے آ سکیں۔ ثابت ہو سکے کہ یہ واقعی خودکشی ہی تھی یا ”پردہ نشینوں“ کی منصوبہ بندی۔ اس کے لئے تفتیشی اداروں کو اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے لاش کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ وہ تفتیش میں جن جن افراد کو شریک کرنا چاہیں شریک کر سکیں۔

نیب کو بھی اپنے اختیارات کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی کا کڑا احتساب اپنی جگہ لیکن جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کے ساتھ بد ترین مجرموں کا سا سلوک روا رکھنا عدل و انصاف کے اصولوں کے سخت خلاف ہے۔ امید ہے کہ احتساب کا عمل بھی جاری رکھا جائے گا اور وہ افراد جو نیب کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں ان کی عزت و حرمت کا لحاظ بھی مقدم رکھا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).