یہ جو سوہنی دھرتی ہے اس کے پیچھے وردی ہے


ستائیس فروری 2019 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور یادگار دن ہے۔ اس دن نے چھ ستمبر 1965 کے دن کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ دن کے اجالے میں پاکستان ایئر فورس کے اسکوڈران لیڈر حسن صدیقی اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے راشد مہناس اور ایم ایم عالم کی روحوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے قوم کو سرخرو کیا۔ اس پاکستان ایئر فورس نے ثابت کر دیا، کامیابی کے ہم نوا رات کے اندھیرے نہیں بلکہ دن کے اجالے ہوتے ہیں۔

27 فروری کو بھارت کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے دو پاکستانی سپوتوں نے بھارت کو دھول چٹا دی۔ پاکستان ایئر فورس کے ہوا بازحسن صدیقی اور نعمان نے جے ایف۔ سیونٹین کو مہارت سے اڑاتے ہوئے، انڈیا کو مگ اکیس اور ایس یو 30 سے محروم کیا جبکہ ان کا ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بھی زیرحراست لیا گیا۔ بعدازاں خیر سگالی کے جذبے کے تحت دو روز بعد اسے بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ بھارتی پائلٹ نے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ پاکستان میں اپنا ٹارگٹ تلاش کررہا تھا مگر پاکستان کے شیر دل جوانوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔

ابھی نندن جن پر حملہ کرنے کی غرض سے آیا تھا ان کی مہمان نوازی کا گرویدہ ہوگیا۔ بھارتی ایئر فورس کے ونگ کمانڈر ابھی نندن نے جاتے وقت افواج پاکستان اور پاکستانی چائے کی بہت تعریف کی۔ پاکستان افواج وہ فورس ہے جو دشمن کی خواہش کا بھی احترام کرتی ہے۔ ستمبر 1965 میں بھارتی فوج نے لاہور میں صبح کا ناشتہ اور شام کی چائے کی خواہش کی تھی اس وقت کی بھی چائے اور ناشتہ تاریخ کا حصہ ہے جبکہ رواں سال ستائیس فروری کی چائے کی چسکی بھارت کے لئے وہ عالمی سبکی ہے جسے دورجدید کے تقاضوں کے تحت کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

ابھی نندن کی واپسی کو اقوام عالم نے پاکستان کی اخلاقی فتح قرار دیا ہے۔ بھارت پہلے ہی نیوی افسر کل بھوشن کے مشن امپاسبل کی خفت سے دوچار ہے۔ ادھر پائلٹ ابھی نندن نے بھی اسے منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔ یہ الگ بات ہے وہ ایک ڈھیٹ ملک ہے۔ اسی لئے اسے اپنی بے عزتی کا احساس نہیں ہوتا۔ دوسری جانب ان کا میڈیا اپنے عوام کو مزید یہ جھوٹ بتارہا ہے کہ ابھی نندن نے پاکستان کا ایف سولہ مار گرایا ہے۔ مزے کی بات ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق ایف سولہ اس آپریشن میں استعمال ہی نہیں کیا گیا تھا۔

چلیں اگر کیا بھی گیا اور ابھی نندن نے کوئی کارنامہ سرانجام بھی دیا تو ان کا ثبوت دے دو تو کوئی جواب نہیں۔ کئی روز گزر جانے کے بعد بھارت کے ایک اینکر راہول کنول نے لائیو شو میں یہ دعوی کیا کہ ہم نے ایف سولہ کے ٹکڑے تلاش کر لئے ہیں۔ اگلے ہی لمحے ان کے دفاعی تجزیہ کار نے بتایا کہ بھائی صاحب یہ پڑوس ملک کے نہیں بلکہ اپنے جگر کے ٹکڑے ہیں جو پاکستانی ایئر فضائیہ کے ونگ کمانڈر نعمان علی خان نے پاش پاش کیا تھا۔ جی ہاں وہ ایس یوتھرٹی کی باقیات تھیں جیسے ان کا جنگی صحافی راہول کنول ایف سولہ گردان رہا تھا۔

رواں سال چودہ فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے خود کش حملے میں بھارتی آرمی کے 44 جوان جان کی بازی ہار گئے تھے۔ واقعے کی تحقیقات کرانے سے قبل ہی بھارت کی سرکار اور ذرائع ابلاغ نے پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی شروع کردی تھی، ہندوستان کی حکومت نے اپنے میڈیا کے ذریعے جنگی ماحول بنانے کی مکمل کوشش کی۔ حد ہے ان کے میڈیا پرسنز سمیت دیگر اہم شخصیات نے بھی خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی خواہش ظاہر کی اور بدلہ، بدلہ لینے کی خواہش ظاہر کی، یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان کو پلوامہ حملے میں کیا دلچسپی؟

وہ بھی اس علاقے میں جہاں کے مقامات سے زیادہ تعداد میں بھارتی فوجی قابض ہو۔ سوال یہ بھی ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں بارودی مواد آیا کیسے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کشمیری نوجوان عادل اپنی جان دینے اور بھارتی فوجیوں کی جان لینے پر آمادہ ہوا کیوں اور کیسے؟ کیا تھے وہ محرکات جس کی بنیاد پر یہ افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔ بجائے ان نکات پر روشنی ڈالنے کے بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کرنے کی ٹھان لی، کیونکہ ان کے یہاں عام انتخابات کے دور آغاز ہوا ہے۔ ویسے بھی انڈیا میں تو کہا جاتا ہے کہ

سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟

کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا؟

26 فروری کی رات کو انڈین ایئر فورس نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے جو تین سے چار کلومیٹر تک مشتمل تھا۔ پاکستان ایئر فورس کے فوری چوکنا ہونے پر بھارتی سورماؤں کی حالات ہی خراب ہوگی اور بوکھلاہٹ میں اپنا پے لوڈ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بھارتی ایئر فورس کی بزدلانہ کارروائی کو انڈین ذرائع ابلاغ نے سرجیکل اسٹرائیک ٹو کا نام دیا یاد رہے بھارت اس قسم کا ڈرامہ رچایا چکا ہے۔ بھارتی آرمی کے مطابق ایل او سی کے قریب شمالی کشمیر کے اُوڑی قصبہ میں 19 ستمبر 2016 کو انڈین آرمی نے پاکستانی فوجی چھاؤنی پر حملہ کیا جس میں بیس فوجی مارے گئے۔ اس واقعے کے دس روز بعد انہوں نے اپنی فلمی سرجیکل اسٹرائیک کی اپنے میڈیا پر لفظی عکس بندی کی جبکہ ثبوت اس کے بھی فراہم نہ کرسکے۔ پاکستان کے بار بار ثبوت مانگنے پر ایک سال بعد مودی سرکار نے دنیا کے سامنے ثبوت رکھے جس پر کل عالم نے ان کی ہنسی اڑائی۔ پاکستان آرمی اس معاملے کو پہلے ہی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے لاچکی تھی۔

اس زمرے میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے مشہور زمانہ الفاظ کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ “بھائی یہ پاک فوج ہے۔ ہم طویل عرصے سے حالت جنگ میں ہیں۔ مادر وطن کے دفاع کے لئے ہر وقت چوکس ہیں۔ اس بات کا منہ بولتا ثبوت، 2015، 19 نومبر 2016 اور 27 اکتوبر 2017 یکم اور دو جنوری 2019 ہیں جب پاک آرمی نے بھارتی جاسوس ڈرون کو مار گرایا ہے”۔

بھارتی فضائیہ کی کارگردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے وہ پاکستان کی طرف سے آنے والے گیس کے غبارے اور کبوتر سے بھی ڈر جاتے ہیں۔ وہ ان معمولی چیزوں سے اس قدر گھبرا جاتے ہیں کہ لڑاکا طیارے ان کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واقعات تین بار رونما ہوچکے ہیں۔ 27 جنوری 2016 ء، دو دسمبر 2016 اور 14 جولائی 2018 ء کو بھارتی افواج کی جانب سے پیش کردہ عالمی لطیفے خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔

بہرحال 26 فروری کی صبح کا آغاز پاکستان کے لئے افسردگی کا پیغام لایا مگر بھارت کا 350 بندے مارنے کا دعوی ایک بار پھر جھوٹ ثابت ہوا کیونکہ بھارت جس جگہ پر اپنی کامیاب کارروائی کا دعویٰ کر رہا ہے وہاں ہمارے چار درخت اور ایک کوے کی لاش ملی ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو پہلے ہی متنبہ کرچکے تھے کہ اگر آپ نے کسی بھی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں بلکہ منہ توڑ جواب دے گا۔ خان صاحب کے اس بیان اور بھارت کی بذدلانہ ہمت کو لے کر پاکستان میں مقیم بھا رتی ذہنوں نے تمسخر کا نشانہ بنایا اور سوشل میڈیا پر افواج پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ حالت کی نزاکت اور وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفورنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں سرپرائز دینے کا اشارہ دیا اور کہا مادروطن کا دفاع کرنا ہمارا فرض ہے۔

ہم جنگ نہیں چاہتے البتہ جیسا کہ وزیراعظم نے کہا ہے ہم جواب دینے کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے اور ایسا دیں گے کہ آپ کو حیران کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے طویل عرصے نادیدہ دشمن کا مقابلہ کیا ہے جس میں اللہ کے فضل اور قوم کی دعاؤں سے سرخرو ہوئے ہیں جبکہ بھارت ہم پر کھلی جارحیت کرتا رہا ہے۔ انہوں نے بھی کہا کہ ستر سالوں سے آپ کو دیکھا اور سمجھا ہے اور اپنے آپ کو تیار بھی آپ ہی کے لئے کیا ہے۔ ترجمان پاک افواج کی جانب سے اس ردعمل پر ہندوستان نے رونا شروع کردیا کہ پاکستان ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے جبکہ شروع انہوں کیا تھا۔ مندرجہ بالا صورتحال کے تحت پاکستان میں جشن کا سماں تھا جبکہ بھارت شکست خوردہ نڈھال جانور کی صورت میں ناک رگڑ رہا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی میڈیا بریفنگ کے مندرجات کے مطابق ہم نے بھارت کے چھ اہم مقامات کو ٹارگٹ کرلیا تھا تاہم ہم نے ان اہم مقامات کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جبکہ ان کے قر یبی علاقوں میں کارروائی کرکے یہ ضرور بتا دیا کہ ہم کیا کیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور کی اس بات کی تائید بھارتی آرمی کا سابق جنرل بخشی نے اس طرح کی کہ ستائیس فروری کو ہماری دفاعی تنصیات پاکستان افواج کے نشانے پر تھیں مگر ان کا کوئی نشانہ درست نہ لگا اور ہم محفوظ رہے۔ ان کے ان کلمات پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ ند امت کے احساس سے عاری بھارتی جنرل اپنے عوام کو صاف صاف نہ بتا سکا کہ اس روز بھارت کو نئی زندگی ملی تھی کہ پاکستان کا اس پر احسان ہے۔

اگر ہم بھارت کی فضائیہ کی تاریخ کی جانب نظر کریں تو ہمیں کچھ اس طرح کی صورتحال دیکھنے کو ملے گی

انڈین ائیر مارشل بھارت کمار نے اگست 2015 میں تسلیم کیا ہے کہ 1965 ء جنگ میں پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پاکستان نے صرف دو دن میں بھارت کے 35 طیارے تباہ کردیئے تھے۔ ائیرمارشل بھارت کمار نے یہ اعتراف اپنی کتاب ”دی ڈیولزآف دی ہیمالین ایگل، دی فرسٹ انڈو پاک وار“ میں کیا ہے جو یکم ستمبر 2015 کو منظر عام پر آئی۔ بھارت کے موقر اخبا ر ”ٹائمز آف انڈیا“ نے اس کتاب کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی وزارت دفاع کے ریکارڈ میں تسلیم کیا گیا کہ 1965 کی جنگ میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

جنگ کے دوران بھارت کے 460 طیاروں میں سے 59 اور پاکستان کے 186 میں سے 43 طیارے تباہ ہوئے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ 1965 کی جنگ بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی فضائی جنگ تھی۔ بھارتی فضائیہ کو پاک فضائیہ پر عددی لحاظ سے برتری حاصل تھی لیکن پاکستانی طیارے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ جدید تھے۔ جنگ کے وقت بھارتی فضائیہ کے پاس 28 لڑاکا اسکوڈرن جبکہ پاکستان کے پاس صرف 11 اسکواڈرن تھے۔ بھارت نے اس جنگ کے دوران اپنے 28 اسکواڈرن میں سے 13 اسکواڈرن، چینی خطرے کے پیش نظر مشرقی اور وسطی سیکٹر پر تعینات کیے۔ کتاب کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کا بہت نقصان ہوا، جو پاکستان کی فتح ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ 1965 ءکی پاک، ہند جنگ کے دوران، جہاں ہندوستان کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اور شرمندگی اٹھانی پڑی وہاں اس کی سبکی کا ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ پاک فضائیہ نے ہندوستانی جنگی طیارہ پاکستانی ہوائی اڈے پہ اتروا لیا اور اس کے پائلٹ نے جان بچانے کے لئے سرنڈر کیا۔ اس واقعہ کی نشانی وہ ہندوستانی جنگی طیارہ آج بھی پاکستان کی تحویل میں ہے اور پی ایف میوزیم کراچی میں بھارتی سورماؤں کا منہ چڑا رہا ہے۔

3 ستمبر 1965ء کو ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کی فضائی حدود میں اپنے 4 لڑاکا نیٹ (GNAT) جہاز جاسوسی کے لئے بھیجے۔ پاک فضائیہ کے 2 سٹار فائٹرز (ایف 104 ) نے ان جنگی جہازوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سرگودھا کے ائیر بیس سے اڑان بھری۔ ان جہازوں کو فلائٹ لیفٹیننٹ (بعد میں ائیر مارشل) حکیم اللہ اور فلائنگ افسر (بعد میں ائیر وائس مارشل) عباس مرزا اڑا رہے تھے۔ فضائی مڈبھیڑ (dogfight) میں ہندوستانی نیٹ طیارے فضائی معرکہ چھوڑ کے بھاگ نکلے۔

ان میں سے ایک جہاز نے، جس کو ہندوستانی فضائیہ کا اسکوارڈن لیڈر برج پال سنگھ اڑا رہے تھے، خود کو پاکستانی حکام کے حوالے کرتے ہوئے وہیں نزدیک ترین رن وے (runway) پر جہاز اتار دیا۔ یہ سیالکوٹ کے نواحی علاقے پسرور میں واقع ایک رن وے تھا، جہاں پہ برج پال سنگھ نے سرنڈر کر دیا اور بعد ازاں اس ہندوستانی جہاز کو فلائٹ لیفٹیننٹ (بعد میں ائیر کموڈور) سید سعد ہاتمی اڑا کر سرگودھا ائیر بیس لے گئے۔

اسکوارڈن لیڈر برج پال سنگھ جنگی قیدی بنا لئے گئے اور جنوری 1966 تک پاکستان کی قید میں رہے۔ بعد ازاں انہوں نے ہندوستانی ائیر فورس مین ائیر مارشل کے عہدے تک ترقی پائی۔ پر ان کا جہاز آج بھی پاکستان میں ہے۔ اس تناظر میں ہم ابھی نندن کا ناکام جہاز بھی جلد پی اے ایف میوزیم میں دیکھیں گے۔ پاک فضائیہ کے پروفیشنلزم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1959 کو عید کے دن بھارت نے اسرائیلی ساخت کا جاسوسی طیارہ پاکستان بھیجا تھا اور اللہ کے کرم سے ہمارے شاہنوں نے اسے بھی مار گرا تھا۔ اسے کے ٹکڑے بھی پاکستان افواج کی ایک اور کامیابی ہے۔

ایک حقیقت ہے کہ لڑاکا طیاروں کی کثیر تعداد کی بدولت بھارتی فضائیہ کا نمبر چوتھا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ طویل عرصے سے بھارتی فضائیہ میں حادثات ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ بھارت میں مگ طیاروں کے حادثات میں اب تک 170 پائلٹس اور 10 شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور صرف سال 2010 ء سے 2013 ء کے دوران 14 سے زائد حادثات ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مگ طیاروں کو ’اڑتے ہوئے کفن‘ یا ’بیوہ بنانے والے طیارے‘ کہا جاتا ہے۔ اسی موضوع پر بالی وڈ نے ’رنگ دے بسنتی‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی۔ بھارتی طیاروں کے اسی طرح گرنے پر سال 2014 ء میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی بھی اظہار تشویش کرچکا ہے۔ 2019 بھارتی فضائیہ کے لئے بہت مہلک ثابت ہوا ہے۔

بھارتی فضائیہ تاحال 8 لڑاکا طیاروں سے محروم ہوچکی ہے۔ 2010 سے اب تک کی مکمل ٹائم لائن کے مطابق بھارتی فضائیہ کب کب حادثات کا شکار ہوا ہے۔

2010ء فروری میں بھارتی فضائیہ کا مگ 27 بمبار طیارہ مغربی بنگال میں گر کر تباہ ہوا۔ 3 مارچ کو بھارتی فضائیہ کا ایچ اے ایل کرن ایم کے ٹو ایڈین ایوی ایشن شو میں عمارت سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں 2 پائلٹس اور ایک شہری ہلاک ہوئے، جبکہ 5 زخمی ہوئے۔ 2011 ء میں بھارتی آرمی کا چیتا ہیلی کاپٹر مغربی بھارت میں گر کر تباہ ہوا جس میں دونوں پائلٹس مارے گئے۔

2012ء میں بھارتی فضائیہ کا کرن ایم کے ٹو جنوبی بھارت میں فضا میں پھٹ کر تباہ ہوگیا جبکہ مارچ میں میراج 2000 کریش ہوگیا۔ 2013 ء میں چیتک ہیلی کاپٹر آئی این 445 خلیج بنگال میں گر کر تباہ ہوگیا جس میں 6 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اسی برس 25 جون کو بھارتی فضائیہ کا ایم آئی۔ 17 ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد 22 اگست کو بحریہ احمر میں بھارتی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا جس میں 2 پائلٹ مارے گئے جبکہ 3 کو بچا لیا گیا۔

28 مارچ 2014ء کو بھارتی فضائیہ کا سی۔ 130 ہرکولس طیارہ مدھیہ پردیش میں گر کر تباہ ہوا جس میں 5 فوجی مارے گئے۔ اسی برس 27 مئی کو مگ 21 مقبوضہ جموں اور کشمیر میں گر کر تباہ ہوا اور پائلٹ مارا گیا۔ یکم اگست کو پونے شہر کے قریب جیگوار طیارہ گر کر تباہ ہوا۔

2015ء: 31 جنوری کو بھارتی مگ 21 گجرات میں گر کر تباہ ہوا۔ مارچ میں جیگوار طیارہ گر کر تباہ ہوا۔

2016 ء: 22 جولائی کو بھارتی فضائیہ کا اینٹوو نے چنائی سے پرواز کیا اور خلیج بنگال میں غائب ہوگیا۔ طیارے میں تقریباً 30 افراد سوار تھے۔ طیارے اور مسافروں کا کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ 4 اگست کو بھارتی فضائیہ کا ہاکس تربیتی طیارہ تباہ ہوا۔ 10 ستمبر کو مگ 21 راجھستان میں گر کر تباہ ہوگیا۔ 13 ستمبر کو جیگوار رن وے سے اتر گیا اور طیارہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ 20 ستمبر کو مگ 21 طیارہ سری نگر ائیر پورٹ پر کریش ہوگیا۔ 3 اکتوبر کو جیگوار پوکھران کے علاقے میں گر کر تباہ ہوا۔ 19 اکتوبر کو بھارتی ایم آئی۔ 17 اتراکھنڈ میں دورانِ تربیت گر گیا۔

2017 ء: 23 مئی کو بھارتی فضائیہ کا سکھوئی طیارہ آسام میں گر کر تباہ ہوگیا اور دونوں پائلٹس مارے گئے۔ اپریل میں بھارتی فضائیہ کا ایم آئی۔ 17 لینڈنگ کے دوران گر کر تباہ ہوگیا جس میں 3 بھارتی فوجی زخمی ہوئے۔

2018 ء: 20 مارچ کو ہاکس جیٹ طیارہ دریا میں گر کر تباہ ہوگیا۔ 3 اپریل کو بھارتی فضائیہ کا ہیلی کاپٹر کیدار ناتھ مندر کے قریب لینڈنگ کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگیا۔ 5 مئی کو بھارت کا چیتا ہیلی کاپٹر مقبوضہ جموں و کشمیر میں گر کر تباہ ہوگیا۔ 5 جون کو بھارتی جیگوار طیارہ گر کر تباہ ہوا، جس میں پائلٹ مارا گیا۔ 5 جون کو ہی لینڈنگ کے دوران جیگوار طیارے میں فنی خرابی پیدا ہوئی اور طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ 27 جون کو بھارتی فضائیہ کا ایم کے آئی سکھوئی طیارہ مہاراشٹر میں گر کر تباہ ہوا۔ 4 ستمبر کو بھارتی فضائیہ کا مگ 27 طیارہ جودھ پور میں گر کر تباہ ہوا۔

2019 ء: جنوری میں بھارتی فضائیہ کا ایم آئی۔ 17 ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا جس میں 6 بھارتی فوجی مارے گئے۔ یکم جنوری کو بھارتی فضائیہ کا میراج 2000 طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ اس طیارے کو ایچ اے ایل نے حال ہی میں مکمل اوور ہال کیا تھا۔ 19 فروری کو ایک فضائی کرتب کے دوران فضائیہ کے 2 ہاکس طیاروں میں باہمی تصادم ہوگیا اور اس حادثے میں ایک پائلٹ اپنی جان سے گیا۔

فروری کی 27 تاریخ بھارت میں اچھی طرح یاد رکھی جائے گی۔ اس روز بھارتی فضائیہ کو سب سے بڑھ کر ہزیمت اٹھانا پڑی۔ پاکستان کے جے ایف۔ 17 تھنڈر طیاروں نے بھارت کے 2 مگ 21 بائسن طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر نہ صرف مار گرایا بلکہ ایک پائلٹ کو گرفتار بھی کرلیا۔ اسی روز مقبوضہ کشمیر میں ایک ایم آئی۔ 17 ہیلی کاپٹر بھی گر کر تباہ ہوا۔ جس میں 6 بھارتی فوجی مارے گئے۔ اسی طرح 8 مارچ کو بھارت کا مگ 21 طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ ۔

اس درجہ سبکی اٹھانے کے بعد بھارت نے اپنی نا اہلیکی وجہ  رافیل طیاروں کی عدم موجودگی کو ٹھہرایا۔ رافیل طیاروں کی خریداری کا معاملہ پہلے سے سیاسی چپقلش کا شکار ہوچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان افواج کی کامیابیاں دنیا کے سامنے ہیں۔ اگر ہم سب سے پہلے پاکستان ایئر فورس کی ہی بات کریں تو پاک فضائیہ دنیا کی وہ پہلی فورس ہے جس نے اپنا جنگی طیارہ بنایا ہے۔ پاکستانی لڑاکا طیارے ’جے ایف 17 تھنڈر‘ کے جدید ترین ورژن ’بلاک 3‘ دنیا کا بہترین چوتھی نسل کے لڑاکا طیاروں سے بھی زیادہ جدید ہے۔ تھنڈر جے ایف 17 بلاک 3 اپنی صلاحیتوں میں امریکی ایف 16، ایف/اے 18 اور ایف 15 روس کے سخوئی 27 اور فرانس کے میراج 2000 جیسے مشہور لڑاکا طیاروں تک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ دشمن کے ریڈار سے بچنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ فضاء سے فضاء اور فضاء سے زمین تک مار کرنیوالے دوسرے میزائلوں کے علاوہ نظر کی حد سے دور تک مار کرنے والے (بی وی آر) میزائل سے بھی لیس ہے۔ سب سے خاص بات یہ کہ جے ایف 17 ’بلاک 3‘ کے کاک پٹ میں 2 افراد کی گنجائش ہے۔ ماہرین کے مطابق جے ایف 17 کی بدولت پاکستان نے مقامی طور پر عسکری طیارہ سازی میں خود کفالت کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔

اب آتے ہیں پاکستان نیوی کی جانب، پاک بحریہ نے 4 مارچ 2019 کو پہلی بار کسی بھارتی آبدوز کی پاکستانی آبی حدود میں در اندازی ناکام نہیں بنائی بلکہ ایسا وہ کئی بار کامیابی سے کر چکے ہیں، نومبر 2016 میں بھی بھارت کی ایک آبدوز پاکستان کی آبی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی، جس کو کامیابی سے روکا لیا گیا تھا، یوں کئی بار ملکی آبدوزوں نے بھارتی نیوی پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان آبدوز ہنگور اور نیوی نے بھارتی نیوی کی جنگی بحری جہاز آئی این ایس کُکری) تباہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں بھارتی فضائیہ کی طرح بھارتی بحریہ بھی حادثات کا شکار رہی ہے۔ 1990 ء سے لے کر 2004 ء کے درمیانی عرصے کے دوران ہر پانچ سال میں ایک وار شپ ضائع ہوا ہے۔

2016 ء میں بھارت کا بہت بڑا جنگی جہاز اُلٹ گیا تھا جس میں معتدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ 2014 ء میں بھارتی آبدوز آئی این ایس سندھو رتنہ سمندر میں ٹیسٹ کے دوران حادثے کا شکار ہوئی جس سے کئی لوگ ہلاک ہوئے۔ واضح رہے اس حادثے کے بعد بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ڈی کی جوشی نے استعفیٰ بھی دے دیا تھا۔ جبکہ 7 نیوی افسران کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ اگست 2014 ء میں بھارت کی آبدوز سندھو رکشہ دھماکے سے پھٹ کر ڈوب گئی۔ اس آبدوز کے جو میزائل تھے حادثے کے بعد جو خود بخود چل گئے جس سے ان کی اپنی آبدوز اور کشتیوں کو شدید نقصان پہنچا۔ جس کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

اس سے قبل 2010 ء میں اسی آبدوز کی بیٹری میں آگ لگنے سے ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ 2017 ء میں بھارت کی نیوکلئیر آبدوز آئی این ایس چکرہ حادثے کا شکار ہوئی۔ یہ آبدوز روس سے دس سال کی لیز پر لی گئی تھی۔ 2018 ء میں لوک سبھا میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق بھارتی بحریہ میں گذشتہ دس سالوں میں 62 بڑے حادثات ہو چکے ہیں۔ جس میں 180 نیوی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جا چکا ہے۔ ان تمام تفصیلات کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاک بحریہ بھارتی بحریہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل تعریف اور جنگی صلاحیتوں کی حامل ہے اور ایسے میں پاک بحریہ سے اُلجھنا بھارتی بحریہ کو کافی مہنگا پڑ سکتا ہے۔

بھارتی آرمی کے ناقص کھانے، کم تنخواہ خواتین سے زیادتی، رنگ و نسل کی بنیاد پر اختلاف، ہم جنس پرستی کی خبریں تو وقت فوقتا نشر و اشاعت کے مراکز کے ذریعے سے دنیا بھر کو ملتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بھارتی مائیں اور اساتذہ نئی نسل کو فوج جوائن کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اس کے برعکس طویل مدت تک سراپا جنگ رہنے والی فوج کے جوانوں کی مائیں ایک کے بعد دوسرا بیٹا بھی وطن پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میرے وطن کی مائیں اپنی بیٹیوں کو بھی بقا وطن کی خاطر قربان ہو نے پر ذرا نہیں گھبراتی اور بڑے فخر کے ساتھ بیٹے تو بیٹے اپنی بیٹیوں کو بھی پاک فوج میں شامل ہونے کی کھلے دل سے اجازت دیتی ہیں۔

یہ یوم پاکستان ماضی کے یوم پاکستان سے کافی مختلف ہے۔ پاک افواج تو ہر سال ہمیں یوم پاکستان کی مبارکباد دیتی ہے۔ آئیں اس 23 مارچ کو ہم اپنے جوانوں کو یوم پاکستان کی مبارکباد دیں کیونکہ یہ جو سوہنی دھرتی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔

یوم پاکستان مبارک ہو جوانوں۔ پاکستان زندہ باد۔ پاک افواج پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).