میثاق جمہوریت اور سیاسی قیادت


پاکستان کی سیاسی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ جب یہ طبقہ حکمرانی کے نظام سے باہر ہوتا ہے یا وہ ذاتی سیاست کے مسائل کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو ان کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ لیکن جب یہ ہی طبقہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتا ہے تو یہ سنہرے الفاظ، خیالات، سوچ اور فکر کو پس پشت ڈال کر حکمران طبقہ محض ذاتی مفادات پر مبنی سیاست اور غیر جمہوری اور آمرانہ سوچ کے ساتھ سیاست یا حکومت کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری کا عمل ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ یقینی طور پر اس میں غیر جمہوری قوتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے جن کی پالیسیوں کی وجہ سے جمہوری عمل کو مستحکم نہیں بنایا جا سکا۔ لیکن یہ اعتراف بھی جمہوری سطح پر جمہوری فکر سے جڑے لوگوں کو کرنا چاہیے کہ جمہوری عمل کی ناکامی میں جہاں خارجی عمل کا حصہ ہے وہیں ان کی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے بھی جمہوری عمل مضبوط نہیں بن سکا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ دونوں ہی سیاسی جماعتوں کو کئی بار اقتدار بھی ملا اور کئی بار ان کو حزب اختلاف کی سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی مجموعی سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت اور مخالفت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ اگر ہم دیکھیں خاص طور پر مسلم لیگ ن کی سیاست کو تو انھیں عملاً اسٹیبلیشمنٹ کے لاڈلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی مخالفت کی وجہ کو بنیاد بنا کر ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ کی لاٹری نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا۔

یہ بھی ایک بڑی تلخ حقیقت ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے، محاز آرائی پیدا کرنے میں اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت بھی حاصل کرکے عملاً جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی سیاست کی۔ اس کا اعتراف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور بعض سنیئر قیادت کرتی رہی ہے۔ یہی منطق دی جاتی ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب ہم جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے کسی بھی کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہماری جدوجہد کا بنیادی نکتہ جمہوریت کی مضبوطی سے جڑا ہوگا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے انہی ماضی کی غلطیوں کو بنیاد بنا کرمیثاق جمہوریت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اب ان کی سیاست ماضی کی سیاست سے مختلف بھی ہوگی اور یہ سیاست جمہوری فریم ورک میں ہوگی۔ لیکن اگر دیانت داری سے کوئی بھی فرد یا ادارہ ماضی میں بننے والے میثاق جمہوریت کی تمام شقوں کا جائزہ یا تجزیہ کرے تو اس کے بیشتر نکات پر دونوں بڑی جماعتوں نے عملی طور پر کوئی سنجید گی کا نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ کوئی مثبت نتائج بھی سامنے نہیں آسکے۔

یہی وجہ ہے کہ 2006 کے بعد سے لے کر 2019 تک جمہوری عمل ارتقائی عمل سے ہی گزر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہی دونوں جماعتوں اور بالخصوص مسلم لیگ ن نے اس معاہدہ کے بعد بھی اپنی سیاست کا مرکز اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہی جوڑا۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار اسی کھیل کی بنیاد پر پیپلز پارٹی مخالف سیاست اور نواز شریف کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سیاست کا حصہ بناتے رہے ہیں۔ اسی طرح 2018 کے انتخابات سے قبل زرداری اور پیپلز پارٹی کی سیاست اور اس کے بیشتر فیصلے اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے جڑے ہوئے تھے۔

اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت عملی طور پر شدید مشکلات کا شکار ہے۔ قیادت کا لفظ اس لیے اہم ہے کہ مسئلہ ان بڑی جماعتوں سے زیادہ ان کی قیادت کا ہے۔ ان دونوں جماعتوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قیادت کی سیاست و پالیسی درست سمت نہیں، مگر عملی طو رپر انہوں نے خاموشی اختیا رکی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو کی جیل میں نواز شریف سے ملاقات میں ایک بار پھر ان دونوں جماعتوں نے قوم کو میثا ق جمہوریت پر نظرثانی کا نیا لولی پاپ دینے کی کوشش کی ہے۔

ان کے بقول موجودہ صورتحال میں قوم اور جمہوریت کو ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست میں کب میثاق جمہوریت، معیشت، طرز حکمرانی سمیت کئی اہم مسائل پر مشترکہ سوچ اور فکر اپنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ضرورت ہمیشہ سے ہماری سیاست کی کنجی ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اس طرز پر مبنی میثاق جمہوریت کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کے لیے ایک بڑے ہتھیار کے طور طاقت بنایا یا ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

اس وقت بھی کیونکہ دونوں جماعتیں احتساب کے عمل سے دوچار ہیں۔ ان کے بقول اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ، ادارے اور حکومت کا باہمی گٹھ جوڑ ان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگا کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ اسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر یہ دونوں جماعتیں ایک بار پھر سیاسی لنگوٹ کس کر میثاق جمہوریت کی بنیاد پر ایک ہونے کی باتیں کررہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا ایک ہونا اور مل کر جدوجہد کرنا برا عمل نہیں، اس کی حمایت ہونی چاہیے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان کا مسئلہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی ہے یا ایک بار پھر ذاتی مفادات پر مبنی سیاست ہے جس میں یہ قیادت الجھی ہوئی ہے۔ پہلے تو ان دونوں جماعتوں کو 2006 کے بعد سے لے کر 2019 تک کی میثاق جمہوریت کے تناظرمیں کی جانے والی سیاست پر خود کو جوابدہی کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ اہل دانش کی سطح پر بہت سے لوگوں میں یہ تحفظات موجود ہیں کہ ان اہم معاہدہ کو دونوں جماعتوں نے اپنی ذاتی سیاست کے لیے استعمال کیا۔

میثاق جمہوریت سے مراد اگر اہل سیاست کی محض اقتدار کی سیاست ہے تو اس سے عوام کا باہمی تعلق کیا ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست سے اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت کا عمل ختم ہونا چاہیے۔ لیکن کیا یہ کسی مصنوعی عمل سے ختم ہوگا یا محض جب یہ سیاسی قوتیں اقتدار سے باہر آتی ہیں تو کسی شور شرابے کی بنیاد پر ہوگا، تو جواب نفی میں ہوگا۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اگر ہم نے جنگ جیتنی ہے تو اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے داخلی جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہوگا۔

یہ عجیب بات ہوگی کہ ہم اپنی داخلی جمہوری عمل کو مضبوط بنائے بغیر جمہوریت کی جنگ جیتنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جو بھی موجودہ جمہوری نظام ہے اس میں لوگوں کی کوئی بڑی حیثیت نہیں۔ کیونکہ جمہوری نظام یا حکمرانی کا عمل عام اور کمزور طبقات کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلیاں پیدا نہیں کرسکا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام، سیاسی جماعتوں اور قیادت کے درمیان واضح خلیج بھی موجود ہے۔ اسی خلیج کی بنیاد پر کوئی بھی جماعت کوئی بڑی تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ بداعتمادی کی فضا نے سب کو لاتعلق بھی کیا ہے۔

بلاول بھٹو کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ دی جاتی تھی کہ وہ اپنے والد سے مختلف سیاست کر کے اپنے نانا اور والدہ کی سیاست کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن بلاول بھٹو ابھی تک عملی طور پر اپنے والد کی سیاست میں قید نظر آتے ہیں اور فیصلوں کے اختیار میں بھی ان کا کوئی بڑا کردار نہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں جو کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے اس کی وجہ خود آصف زرداری ہیں جنہوں نے نواز شریف کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کی سیاست کی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اس مفاہمت کی سیاست کو مسترد کردیا تھا اور اب بلاول بھی اسی غلطی پر ہیں جو ان کے والد نے کی تھی۔

اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جس میں نواز شریف کے حامی زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں کہ ہمیں مل کر ایک ایسی مشترکہ کوششوں کو منظم کرنا ہوگا جو حکومت اور ریاست پر دباؤ بڑھائے۔ کیونکہ دونوں جماعتوں کی قیاد ت جس خطرے سے دوچار ہے اس کا حل ان کے نزدیک اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی سے جڑ ا ہے۔ نیب، اسٹیبلیشمنٹ، حکومت کو دباؤ میں لاکر دونوں جماعتیں احتساب کے عمل کو پیچھے چھوڑنا چاہتی ہیں۔

بلاؤ ل بھٹو سمجھتے ہیں بات محض نواز شریف تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اگلہ نشانہ آصف زرداری بھی ہوسکتے ہیں اور اسی نکتہ کی بنیاد پر نئے میثاق جمہوریت کا شوشہ چھوڑکر اپنی بقا کی سیاست کے تانے بانے بنائے جارہے ہیں۔ حالانکہ اب سیاست ماضی سے کافی مختلف ہوگئی ہے اور اب پرانے اور فرسودہ یا استحصال پر مبنی کارڈ کا کھیل بہت آسانی سے نہیں کھیلا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).