اورموم بتیاں جلتے جلتے بجھ گئیں


پاک بھارت جنگ کی باتیں سن سن کر جب میں تنگ آگیا تو سائیں بابا سے ملنے اندرون شہر لاہور چلا گیا۔ بابا اپنے کمرے میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔ کمرے کے درو دیوار اداسی کا منظر پیش کرتے نظر آئے۔ ایسا لگا جیسے میں کسی اداس اور سنسان درگاہ پر آگیا ہوں۔ مصنوعی روشنی کی بجائے کمرے کے چاروں اطراف موم بتیاں جل رہی تھی۔ بابا ان موم بتیوں کی روشنی میں اسٹڈی میں مصروف تھے۔ سیاہ کپڑوں میں ملبوس سائیں بابا نے میری طرف دیکھا اور کہا، سرکار آج یہاں کیسے آنا ہوا؟

میں نے کہا بابا دل اداس تھا، جنگ کی باتیں سن سن کر تنگ آیا ہوا تھا، اس لئے آپ کے پاس آ گیا۔ لیکن یہاں آکر ایسا لگا جیسے تیسری جنگ عظیم ہو چکی ہے اور آپ یہاں پر بیٹھے انسانیت کی تباہی کا سوگ منا رہے ہیں۔ بابا میری اس بات پر مسکرانے کی بجائے اداس نظر آئے۔ بابا نے دکھ بھرے لہجے میں کہا، بیٹا آدم کی پیدائش سے اب تک انسان جنگی کیفیت میں ہی تو ہے۔ کڑوروں سالوں سے اس دنیا میں کبھی بھی امن نہیں رہا۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ دو ہی ادوار رہے ہیں۔

ایک دور جنگ کا ہوتا ہے اور دوسرا جنگ کی تیاری کا دور ہوتا ہے۔ یہ طاقتور انسان آدم سے لے کر اب تک ایک ہی تو کام کرتے آئے ہیں اور وہ کام ہے دنیا میں کشمکش پیدا کرنا، دنیا کے انسانوں کو تقسیم کرنا، انہیں آپس میں لڑانا اور تباہی و بربادی پھیلانا۔ اور اب تیسری جنگ عظیم کی تیاری ہورہی ہے۔ میں نے پوچھا بابا کیا تیسری جنگ عظیم ہونے جارہی ہے؟ بابا نے کہا اس سوال کا جواب ایٹمی توانائی دریافت کرنے والے سائنسدان آئن سٹائن بہت پہلے ہی دے چکے ہیں۔

آئن سٹائن سے کسی نے یہی سوال کیا تھا ہ کیا تیسری جنگ عظیم ہونے والی ہے؟ یہ سوال سنتے ہی آئن سٹائن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آئن سٹائن نے کہا، مجھ سے تیسری جنگ عظیم کے بارے میں کچھ نہ پوچھو، میں تیسری جنگ عظیم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ ہاں اگر چوتھی جنگ عظیم کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہوتو اس کے بارے میں بتا سکتا ہوں؟ وہ شخص حیران ہوا اور اس نے کہا، پھر چوتھی جنگ عظیم کے بارے میں ہی کچھ بتادیں؟

آئن سٹائن نے کہا چوتھی جنگ عظیم نہیں ہوگی۔ تیسری جنگ عظیم ہی انسانی تاریخ کی آخری جنگ ثابت ہوگی۔ اس جنگ کے بعد زمین سے انسان اور انسانیت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ بابا نے کہا بیٹا تیسری جنگ عظیم کے لئے سیاستدان، مذہبی لیڈر، قومی رہنما اور فوجی جرنیل اور باقی طاقتور حلقے بھرپور تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ ان طاقتور حلقوں کی بدصورت گیم جاری ہے۔ سیاہ رات آنے والی ہے۔ اس کالی رات کو روکنے کے لئے امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

ہم ایٹم بموں پر بیٹھے ہیں، یہ ایٹم بم کبھی بھی پھٹ سکتے ہیں۔ شام، عراق، بحرین، یمن، پاکستان، افغانستان، شمالی کوریا سے لے کر امریکہ، یورپ اور روس تک ہر جگہ اس تیسری جنگ عظیم کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ تباہ کن ایٹمی ہتھیار بنانے کا کاروبار جاری ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی امریکہ، روس اور برطانیہ وغیرہ دنیا کے تمام ملکوں کو خوفناک ہتھیار فروخت کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ تیسری جنگ عظیم کے لئے ہی تو ہو رہا ہے۔ ہتھیاروں کا بزنس عروج پر ہے۔

سینکڑوں انتہا پسند تنظیمیں پوری دنیا میں دہشت گردی کرنے میں مصروف ہیں۔ کیسے تیسری جنگ عظیم کو روکا جاسکتا ہے۔ شمالی کوریا کے پاگل حکمران کا جس دن موڈ آف ہو گیا، یا داعش کے ہاتھ ایٹم بم بنانے کا فارمولا آگیا تو پھر تیسری جنگ عظیم شروع ہو جائے گی۔ مکروہ طاقتور ملک ہتھیار بیچ کر کھربوں ڈالرز کما رہے ہیں۔ اور انسان مر رہے ہیں۔ دنیا کے اسی فیصد وسائل دفاع اور سیکیورٹی کے نام پر ضائع ہو رہے ہیں۔ کہیں امن نہیں، امریکہ سے روس اور روس سے عراق و شام اور پاکستان تک اور پاکستان سے یورپ تک ہر جگہ جنگ ہی جنگ ہے۔

بیلجئیم، برطانیہ، فرانس اور لندن نیویارک تک جنگی کیفیت ہے۔ سیاستدان، جرنیل اور مذہبی رہنما چالاک اور عیار ہیں اور یہ عوام اندھے اور بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں۔ دنیا کی بے بس انسانیت کو سمجھ نہیں آرہا کہ طاقتور حلقے انہیں کس تباہی و بربادی کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ افغانستان کو قبرستان بنا دیا گیا ہے پھر بھی اس ملک میں اسلحے کی فروخت جاری ہے۔ تباہی و بربادی کا منہ بولتا ثبوت افغانستان اب بھی وحشیوں کی درندگی کا شکار ہے۔

کیا دنیا ہے. ہر انسان دوسرے انسان کو یا تو قتل کررہا ہے یا پھر اسے قتل کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔ سکول، عوامی مقامات، سرکاری تنصیبات اور اسپتال تک ہر جگہ دھماکے ہورہے ہیں۔ اس دنیا میں ہر سال پچاس ملین سے زائد انسان بھوک، غربت اور بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ ہر سال ایک ہزار بلین ڈالرزجنگی ساز و سامان پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ یہ ہے انسانیت جہاں محبت اور امن کے لئے کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔ دنیا کے انسانوں نے زندگی میں دلچسپی لینا بند کردی ہے۔

انسانی تاریخ میں کبھی اس قدر انسانوں کا قتل عام نہیں ہوا جتنا اب ہورہا ہے۔ بابا نے کہا بیٹا پاکستان اور بھارت کے نیوز پیپرز، میڈیا کا سسٹم جنگی ماحول پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ یہ اخبارات، یہ نیوز چینلز سیاستدانوں اور جرنیلوں کے جنگی اور خونی بیانات سے لبریز ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا میڈیا اس خطے کا دشمن نمبر ون بن چکا ہے۔ دنیا کی آبادی سات ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ خوراک کم ہو رہی ہے، پانی کے ذخائر مٹ رہے ہیں۔ ہر طرف مہاجرین کا بحران ہے، شام میں لاکھوں معصوم بچے مر چکے، لاکھوں بچوں کی زندگی رسک پر ہے۔

زمین خشک ہو رہی، زمین سے زندگی غائب ہو رہی ہے، لیکن طاقت کا نشہ ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس لئے دنیا کی تباہی کا وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ طاقتور حلقوں کا راستہ روک سکے، طاقتور دنیا انسانیت کو تاریکی کی طرف لے جارہی ہے اور انسانیت خاموش بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔ ان اکثریتی انسانوں کو یہ سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ طاقتور حلقوں کو جنگ مزید طاقتور بناتی ہے۔ اس لئے وہ کبھی جنگ کو دنیا سے غائب نہیں ہونے دیں گے۔

سیاستدان، جرنیل اور مذہبی لیڈر کبھی بھی امن اور محبت کو راستہ نہیں دیں گے۔ اس دنیا میں قومی ترانے اور قومی جھنڈے موت کی علامت بن گئے ہیں۔ ان قومی جھنڈوں کی وجہ سے لاکھوں انسان مر گئے، لاکھوں مررہے ہیں۔ اس لئے یہ جھنڈے خوبصورت نہیں، بدصورت ہیں۔ انسانیت کے قاتل ہیں یہ دنیا کے ملکوں کے رنگ برنگے جھنڈے۔ اس دنیا میں ہر ملک دوسرے ملک کا دشمن ہے۔ یہ جھنڈے کبھی انسان اور انسانیت کو ایک نہیں ہونے دیں گے۔ یہ جھنڈے سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ضرورت ہیں۔

اور یہی جنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ بیٹا اس دنیا میں جس طرف بھی نگاہ دوڑاؤ گے غصے سے لدے انسان چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ یہ انسان نہیں بارود سے بھرے روبوٹ یا زندہ لاشیں ہیں جو پھٹ رہے ہیں۔ سیاسی، فوجی اور مذہبی ادارے موت کے ادارے بن چکے ہیں۔ یہ سب موت کی خدمت پر مامور ہیں۔ ان اداروں میں زندگی سے محبت کا درس نہیں دیا جاتا، صرف موت اور شہادت کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ اگر تیسری جنگ عظیم سے بچنا ہے تو پھر جنگ پیدا کرنے والے تمام عناصر کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اور محبت کا عظیم ٹمپل پیدا کرنا ہوگا۔ جنگ کے خداؤں کی تباہی ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ جنگ اب انسانیت کی ضرورت بن گئی ہے۔ تیسری جنگ عظیم سے بچنا ہے اور دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانا ہے تو پھر انسان کے اسکرپٹ کو بدلنا ہو گا۔ اس انسان کو نیا پروگرام اور نیا منشور دینا ہوگا۔ آج اور ماضی کا انسان امن، محبت، خدا، مذہب، قوم، وطن اور ذات پات کے نام پر جنگ کرتا آیا ہے اور جنگ کر  رہا ہے۔ یہ انتشار زدہ انسان ہے۔ اس کی روح بدصورت ہو چکی ہے۔ یہ ایسا انسان ہے جو اپنے اندر کی دنیا کے ساتھ بھی جنگ کی کیفیت میں ہے اور باہر بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ یہاں سیاتدان، جرنیل میڈیا کے حلقے، دانشور اور ادیب سب کے سب ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا بابا دنیا کو محفوظ کیسے بنایا جائے؟ بابا نے کہا بھائی یہ بونوں، احمقوں اور بے قوفوں کی دنیا بن چکی ہے۔ اس کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ان کا مرنا ٹھہر گیا ہے۔

انسان اب اس زمین پر بوجھ بن چکے ہیں، یہ انسان نہیں زومبیز ہیں۔ یہ آلودہ ترین زہریلی مخلوق میں بدل چکے ہیں۔ یہ موت کے نئے نئے طریقے دریافت کررہے ہیں۔ ان کو مر جانے دو۔ تیسری جنگ عظیم کو روکنے کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کم از کم یہ جنگ زمین کو انسان جیسے گند سے پاک و صاف کردے گی۔ نہ مندر رہیں گے، نہ گرجے رہیں گے، نہ ٹمپل رہیں گے اور نہ ہی وہائٹ ہاؤسز رہیں گے۔ سوال تیسری جنگ عظیم کا نہیں ہے۔ سوال انسانی شعور اور آگہی کا ہے۔ موجودہ انسانی دماغ سے تیسری جنگ عظیم کو روکا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ انسانیت کا یہ دماغ شعور، آگہی سے محروم ہے۔ بابا بولتے بولتے اچانک خاموش ہو گئے۔ موم بتیاں جلتے جلتے بجھ گئی۔ کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ اب کمرے میں تاریک اندھیرا تھا۔ بابا اندھیرے میں تحلیل ہو چکے تھے۔ مجھے ایسے لگا جیسے تاریکی کا حصہ بن چکا ہوں۔ کمرے کے دروازے کے ایک سوراخ نظر آیا جہاں سے روشنی کی باریک سی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ میں خاموشی اور خوف زدہ کیفیت میں اٹھا اور اس روشنی کی طرف چل پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).