نیٹ کا نشہ چھڑانے کے چینی مراکز میں کیا ہوتا ہے؟



میرے کام کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
میرے لیے سب کچھ ہے وِرچوئل دنیا

جی ہاں، اب ہماری دنیا کے نوجوانوں کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا، اوّل و آخر ترجیح بن چکی ہے۔ آپ کو اس کی مثال دیکھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے بھر پُرے گھر پر نظر ڈال لیجیے۔ اگر گھر میں چار نوجوان موجود ہوں گے تو چاروں ہی الگ الگ اپنے اپنے سیل فون، ٹیبلٹ یا پھر لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں گاڑے، دنیا و ما فیہا سے بے خبر، اپنی ہی دھن میں مگن ہوں گے ۔

ماہرین اس طرح انٹرنیٹ کے مسلسل استعمال کی لت کو کلینیکل ڈس آرڈر قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اب بیشتر ملکوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد تعلیم، گھریلو اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے دن رات آن لائن گیمز کھیلنے یا سوشل میڈیا کی سائٹس پر چیٹنگ میں مصروف رہتی ہے۔ اسی لیے ماہرین نیٹ ایڈکشن کو اب باقاعدہ مہلک مرض قرار دے چکے ہیں جو نوعمر بچوں اور نوجوانوں کو جسمانی اور ذہنی مریض بنا رہا ہے۔ وہ دن رات سیل فون، ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ لیے یا پھر نیٹ کیفے میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے، وِرچوئل ورلڈ کی سیریں کرتے پھرتے ہیں اور ان کا اس ”جہانِ فانی“ سے، جیسے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔

کون سے ماں باپ ہوں گے جو اپنے جگر گوشوں کو اس لاحاصل جنون کے ہاتھوں یوں بربادہوتے دیکھ سکیں گے؟ بالآخر کئی ملکوں میں والدین نے میڈیا اور دیگر پلیٹ فارموں پر چیخ  پکار شروع کی کہ ہمارے بچوں بچیوں کو اس لعنت سے چھٹکارا دلایا جائے اور انھیں معاشرے کا کارآمد فرد بننے میں مدد دی جائے۔ سب سے پہلے چینی حکومت نے اس پکار پر دھیان دیا اور 2006 ء میں نیٹ نشّہ چھڑانے کا ایک خصوصی کیمپ قائم کر کے، وہاں ایسی لت میں مبتلا لڑکے لڑکیوں کو لاکر انھیں فوجی تربیت دینے کے اسٹائل میں، ان سے گھر کا سکھ، فون، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ جیسی چیزیں چھین کر، انھیں سخت جسمانی اور ذہنی ورزشیں کرانا شروع کیں۔

وقت پر سونا اور جاگنا، تھوڑا کھانا، جاگنگ کرنا اور ایسے دوسرے صحتمندانہ معمولات ان کی زندگی کاحصہ بنائے گئے۔ اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں ایسے کئی مراکز کھول دیے گئے ہیں۔ یہ مراکز جیل سے زیادہ سخت ہیں، اس لیے یہاں سے کوئی ’قیدی‘ بھاگ کر جان بھی نہیں چھڑا سکتا۔ اس علاج کے عیوض والدین سے بہت بھاری فیس لی جاتی ہے، اس لیے ماں باپ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے، علاج کروا کے، انسان کے بچے بن جائیں۔ اس قسم کے علاج کے حوالے سے دنیا بھر میں بیجنگ کا ڈاکسنگ انٹرنیٹ ایڈکشن ٹریٹمنٹ سینٹر بہت کامیاب جا رہا ہے، جہاں انٹرنیٹ کے دھتی مریضوں کو 6 سے 9 مہینے داخل رکھا جاتاہے۔ انھیں قائل کیا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ اسکرین سے ہٹ کر بھی بہت بڑی، اچھی اور صحت بخش قسم کی دنیا موجود ہے۔ یہاں ان کو زندگی سے صحیح اور مثبت طریقے سے لطف اندوز ہوناسکھایا جاتاہے۔

یہ کام عام قسم کے نفسیاتی ماہرین، اساتذہ یا انسٹرکٹرز کے بس کا نہیں ہے کہ نیٹ کے عادی لڑکے لڑکیوں سے یہ عادت چھڑاسکیں۔ اس لیے چینی حکومت نے اس طرح کے مراکز، پیپلز لبریشن آرمی کے سخت گیر افسروں کی نگرانی میں قائم کیے ہیں۔ مگر اس سے پہلے ان انسٹرکٹروں کو اس کام کی باقاعدہ تربیت دی گئی ہے۔ اس طرح کے پہلے کیمپ کے انچارج سابق کرنل تاؤران ہیں جو ملک کے ممتاز ماہر نفسیات سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس مرکز میں علاج کے لیے لائے جانے والے مریضوں میں سے 75 فیصد صحت مند ہو کر حقیقی زندگی میں لوٹ چکے ہیں۔ کرنل تاؤران، انٹرنیٹ کو ہیروئن سے زیادہ مہلک نشّہ قرار دیتے ہیں۔ جس کے اثرات ہیروئن سے کہیں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

مرض کی علامات

اس بیماری میں مبتلا نوجوانوں کو کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ جس کی وجہ سے ان کی صحت اور دماغی صلاحیت دونوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیٹ کے بعض جنونی ایسے بھی ہیں جو مہینوں گھر سے باہر نہیں نکلتے اور اس طرح دن کی روشنی یا سورج بھی نہیں دیکھتے۔ ایسے نوجوان اکثر گروپ بنا کر آن لائن مصروف رہتے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر نیٹ پر مصروفیت کے دوران انھیں باتھ روم جانے کی حاجت محسوس ہوتو بھی نہیں اٹھتے۔ اس کے لیے انھوں نے ”خصوصی انتظام“ کیا ہوتا ہے۔ یعنی اس طرح کے جنونی پہلے سے پیمپر یا ڈائپرز باندھ کے نیٹ پر بیٹھتے ہیں! ۔

انٹرنیٹ کی لت میں مبتلا افراد روزانہ بیس بیس گھنٹے تک اس شوق میں مبتلا رہ کر، خود کو خود تباہ کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ کسی دوسرے شخص سے ’زبانی کلامی‘ بات چیت بھی نہیں کرتے۔ گھریلو کاموں میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور دن بھر محض ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل کھاتے ہیں۔ انھیں آس پاس کی دنیا کا کچھ پتاہی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ گھر اور باہر کے لوگوں سے کٹے رہنے کی وجہ سے ان کے گھریلو اور سماجی تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ ایسے 90 فیصد مریض شدید اعصابی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس مرض میں مبتلا افراد کی زندگی بھی مختصر ہوتی ہے اور وہ قبل از وقت موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسا ایک نوجوان 2011 ء میں مسلسل تین دن آن لائن گیمز میں مصروف رہنے کے دوران مرگیا تھا۔

پاکستان میں 16.7 فیصد طلباء نیٹ نشّے میں مبتلا ہیں

پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسزمیں شایع ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہمارے ملک میں 16.1 فیصدطلباء انٹرنیٹ کے نشے میں مبتلا ہیں۔ تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کے عادی اسٹوڈنٹس میں کوئی صنفی امتیاز نہیں اور طلبہ اور طالبات تقریباً یکساں شرح سے اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس ریسرچ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ جو نوجوان کھیل یا جسمانی سرگرمی میں حصہ لیتے ہیں، وہ اس لت میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا نشّہ طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں پر بری طرح سے اثرانداز ہوتا ہے۔ عام طلبہ کے مقابلے پر انٹرنیٹ کے عادی طلبہ میں امتحانات میں ناکامی کی شرح ڈھائی گنا زیادہ ہوتی ہے۔

ڈیجیٹل اِن کیرپورٹ برائے 2018 ء میں بتایا گیا ہے کہ 2017 ء کی بہ نسبت گذشتہ سال پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اب ملک بھر میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، جن کا 72 فیصد حصہ موبائل فون کے ذریعے آن لائن ہوتا ہے۔ اور ان میں بہت بڑا حصہ طلبہ پر مشتمل ہے، جو اپنی پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ مگر اب وہ نیٹ پر دیگر آن لائن مشاغل میں زیادہ مبتلا ہو رہے ہیں۔

یہ مسئلہ سب سے زیادہ چین میں پیش آرہا ہے جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہاں ایسے مریض جو انٹرنیٹ کی علاج گاہوں میں داخل رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کیمپوں میں نشّہ چھڑانے والے استاد بہت ظالم ہیں جو علاج کے نام پر انھیں برقی جھٹکے دیتے ہیں اور ہر قسم کا تشدد بھی کرتے ہیں۔ انھیں دو تین دن بھوکا رکھا جاتا ہے اور اسی حال میں ان سے سخت ورزشیں کرائی جاتی ہیں۔ اس لیے ان بحالی کے مرکزوں میں مریضوں کے مرجانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ نوجوان مریض، خاص طور پر لڑکیاں اس قسم کے تشدد سے تنگ آکر پہلے کیمپ سے فرار ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور اگر اس میں کامیاب نہ ہوسکیں تو وہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے بھی باز نہیں آتیں۔ اب چینی حکومت نے ایک نیا قانون تیار کیا ہے جو اس طرح کے مراکز میں تشدد اور دیگر واقعات کی روک تھام کے لیے موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

انٹرنیٹ پر تعلیمی وسائل کی کوئی حد نہیں اور یہ میڈیم طلبہ کو تعلیم و تحقیق میں بہت مدد دے سکتا ہے، لیکن کسی بھی طالبعلم کو پڑھائی کے دوران توجہ کے ارتکاز کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن انٹرنیٹ اس کے بالکل برعکس توجہ بٹانے کے بیشمار مواقع فراہم کرتا ہے، جس سے طالبعلم بھٹک کر کسی اور طرف نکل جاتا ہے۔

اس وقت انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں نوعمر بچے بچیاں سب سے زیادہ ہیں، جن کی عمر 12 تا 17 سال ہے۔ ان کے بعد بالغ نوجوان لڑکے لڑکیاں آتے ہیں، جو 18 سال سے 29 سال کی عمر میں ہیں۔ یہی دو گروپ اس لت میں زیادہ مبتلا ہیں، جو اپنی تعلیم، گھریلو ماحول، دوستوں اورسماجی زندگی سے کٹ کے رہ جاتے ہیں۔ انھیں جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی عوارض لاحق ہوجاتے ہیں۔

چین میں 2010 ء سے انٹرنیٹ کے غیر ضروری اور مسلسل استعمال کے نقصانات پر حکومتی اور نجی سطح پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بتایا گیا ہے کہ نیٹ نشّے میں مبتلا نوجوانوں کو اگران کے گھر والے اس فضول مشغلے سے طاقت کے زور پر دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خطرناک پاگلوں کی طرح لوگوں کو جسمانی نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آتے۔

بے حساب وقت تک آن لائن رہنے کے باعث بے خوابی، ذہنی دباؤ اور جو اعصابی تناؤ پیدا ہوتا ہے، اس سے انسانی جسم کا مدافعتی نظام کمزور اور بے کار ہوجاتا ہے۔ ایک ہی جگہ کئی گھنٹے بیٹھے رہنے، ہل جل نہ کرنے، مسلسل لیٹے رہنے اور خطرناک شعائیں خارج کرنے والی اسکرین ہر وقت آنکھوں کے آگے رہنے سے جسمانی بیکاری، دماغی کمزوری اور ضعفِ بصارت جیسے امراض لاحق ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ انسان میں چڑچڑے پن، غصے، کاہلی، مایوسی، بدمزاجی اور بدتمیزی جیسی بدعادت پیدا ہوجاتی ہیں۔

یہ جو بظاہر نفسیاتی اور ذہنی امراض دکھائی دیتے ہیں، یہی انسانی جسم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس سے دل کی دھڑکن غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ شانوں، بازوؤں، ہاتھوں میں درد رہنے لگتا ہے۔ کی پیڈ (Keypad) یا اسکرین پر مسلسل کام کرنے سے انگلیاں بھی ٹیڑھی ہونے لگتی ہیں۔ ایسے ہی دھتی نوجوانوں کو قیدیوں کی طرح انسدادِ انٹرنیٹ مراکز میں ڈال دیا جاتا ہے۔

”علاج کے دوران مریض مرجانا کوئی بڑی بات نہیں“

نیٹ کا نشّہ چھڑانے کے علاج گاہوں میں بھی چند ایک مریض مرنے کے واقعات ہو ئے ہیں، جن کے خلاف والدین اور میڈیانے واویلا مچایا تھا۔ مگر حکومت اور ان کیمپوں کے انچارجوں کا موقف ہے کہ جس طرح اسپتالوں میں علاج کے لیے داخل کچھ مریض صحتیاب ہونے کے بجائے مرجاتے ہیں۔ اس طرح ان مراکز میں بھی اِکا دُکا مریض مر جاتے ہیں۔ یہ کوئی بڑی یا غیر معمولی بات نہیں! ۔

واضح رہے کہ پچھلے دنوں چین کے مشرقی انہوئی صوبے میں انٹرنیٹ ایڈکشن (IA) کے لیے قائم ایک علاج گاہ میں ایک اور 18 سالہ طالب علم لیو ’علاج‘ کی سختیاں نہ سہتے ہوئے مر گیا تھا۔ جس کے بعد ملک بھر میں اس ظالمانہ مسیحائی کے خلاف احتجاج کی لہر ابھری ہے۔ پولیس نے متعلقہ مرکز کے ذمہ داران کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ متوفی طالب علم کی بدنصیب ماں نے میڈیا پر بتایا تھا کہ اس کے بیٹے کا پورا بدن زخم زخم تھا۔ ہاتھوں کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور ایک آنکھ بھی سوجی ہوئی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2