پاکستان میں انتہا پسندی کا خاتمہ، مگر کیسے؟


گزشتہ مضمون میں ہم نے پاکستان کے ابتدائی چالیس سالوں میں مذہب کی اساس پہ قومی بیانیے کی تشکیل کے اسباب کا جائزہ لیا تھا۔ آج ہم اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق نے جب مارشل لا لگایا تو اس کے سامنے اندرونی طور پر سب سے بڑا چیلنج بھٹو کی عوامی مقبولیت اور سیاسی اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک متبادل طاقتور نظریے اور مقتدر حلقوں کے ساتھ ایک ایسا الحاق قائم کرنا تھا جو عوامی سطح پر بھٹو کی مقبولیت کے اثرات کو زائل کر سکے۔

جنرل ضیاء نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے جہاں صنعت کار طبقے سے روابط قائم کیے وہیں سیاسی مذہبی طبقات کو ریاستی امور میں اپنا شراکت دار بنا دیا۔ یہ شراکت داری دوھرے فوائد کی حامل رہی۔ جہاں ایک طرف ضیاء الحق اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے میں کامیاب رہا وہیں افغانستان میں امریکہ کی طرف سے شروع کیے گئے جہاد کے لیے مفت مجاہدین کی ایک بڑی تعداد بھی حاصل ہو گئی۔ اس دور میں جہاں دنیا بھر سے جنگجووّں نے پاکستان کا رخ کیا وہیں امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کی مدد سے تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی گئی جن سے مذہبی بنیادوں پہ قومی بیانئے کو مزید طاقت حاصل ہو گئی۔

نہ صرف اسلامیات لازمی قرار دی گئی بلکہ باقی مضامین کو بھی مشرف بہ اسلام کرا دیا گیا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بائے اس دور میں سرکاری سطح پر منعقد کی گئی ایک سائنس کانفرس کا احوال سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کانفرنس میں جنات سے بجلی پیدا کرنے کے طریقوں اور فرشتوں کی رفتار ماپنے کے کلیے جیسے موضوعات پر مقالے پیش کیے گئے۔ ریاستی نگرانی کے ذیر اثر نصابی تبدیلیوں کے اثرات پورے سماجی روّیوں پر پڑے اور مذہبی فرقہ وارانہ فسادات کے ایک نئے سلسلہ کا آغاز ہوا اور دائرہ اسلام کی حدود کے تعیّن اور کفر کے فتوّوں کا ایک نیا کاروبار شروع ہو گیا۔

نو نومبر دو ہزار ایک تک ایک پوری نسل اس نصاب کو پڑھ کر اپنی جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھ چکی تھی کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس بار بھی میدان جنگ افغانستان بنا اور پاکستان کو ایک بار پھر صف اول کی ریاست بننا پڑا۔ کل کے مجاہد آج دہشت گرد ٹھہرے۔ عالمی دباؤ پاکستان کو اپنے قومی بیانیے میں ترمیم پر مجبور کر رہا تھا۔ اس دباؤ کے جواب میں اور اس نئی جنگ میں اپنے کردار کی وجہ سے جنرل مشرف نے ایک نیا قومی بیانیہ ’سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی شکل میں دینے کی کوشش کی۔

مگر عشروں پہلے بوئے انتہا پسندی کے بیج اب تنّاور درخت بن چکے تھے۔ چند نعروں سے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ جتنے وسائل پورے سماج کو اس جہنم میں دھکیلنے پر لگائے گئے تھے ان سے کہیں زیادہ وسائل اور زیادہ سنجیدگی اس آگ پر پانی ڈالنے کے لیے چاھیے تھی۔ جیسے کیکر کے پودوں پر انگور کا پیوند نہیں لگ سکتا ایسے ہی انتہا پسندی کے بیج بو کر امن کے پھل آنے کی امید کرنا بھی محض خام خیالی تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت کی دنیا سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

جنرل مشرف کے پورے دور میں ہم نے یہی کچھ دیکھا۔ جہاں ریاست روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا ڈھول پیٹ رہی تھی وہیں اپنے پرانے شدت پسند مذہبی اتحادیوں کے ساتھ الحاق ختم کرنے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آ رہی تھی اسی دوغلی پالیسی کا ایک مظہر ریاستی سطح پر اچھے طالبان اور برے طالبان کی تخصیص جیسے مباحث کا قومی و نجی نشریاتی چینلز پر فروغ تھا۔ بہرحال اس دور میں پاکستان نے اپنی ماضی کی غلطیوں کی سب سے بھاری قیمت چکائی۔

ہر دوسرے دن ملک کے کسی نا کسی شہر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے لگے۔ ان واقعات کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو ہزار ایک سے لے کر دو ہزار سات تک تین ہزار ایک سو پینتیس عام شہری، ایک ہزار دو سو گیارہ سیکیورٹی اہلکار اور گیارہ ممتاز صحافیوں کے ساتھ بینظیر بھٹو جیسی سیاسی شخصیت دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ دس ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہو کر کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہو ئے۔ دہشت گردی ایک طرف صرف فرقہ وارانہ فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا شدید ذخمی ہوئے۔

جنرل مشرف کے بعد آنے والی حکومتیں بھی وہ بنیادی تبدیلیاں کرنے میں ناکام رہیں جن کے طفیل سماج میں انتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات کا ازالہ کیا جا سکتا۔ ملالہ یوسف ذئی پر حملہ ہو یا اے پی ایس میں بچوں کا قتل عام، مشال خان کا بیدردی سے قتل ہو یا باچہ خان یونیورسٹی پر حملہ، بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کا قتل عام ہو یا پنجاب میں شیعہ سنی فسادات کی نظر ہونے والی جانیں، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل ہویا بلور خاندان کی لاشیں، ماڈل ٹاؤن میں گرنے والی لاشیں ہوں یا حال ہی میں سانحہ ساہیوال میں مارے جانے والے بیگناہ لوگ ان سب واقعات اور ان جیسے سینکڑوں مزید واقعات کے پیچھے سب سے بڑی وجہ انتہا پسند ی کے وہ بیج ہیں جو عشروں پہلے لگائے گئے تھے اور آج پھل دار تناور درخت بن چکے ہیں۔ اپنی کوتاہ اندیشی کے سبب ایک مدت سے ہم ایک خون کی نہر ہے کہ جسے پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سفر ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔

اس خون کی نہر سے گزرنے کے باوجود جنرل مشرف سے لے کر آج تک ارباب اقتدار کے ہاں انتہا پسندی سے نپٹنے کے لیے وہ سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ یہ زہر پورے سماج میں سرائیت کر چکا ہے۔ کوئی نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن رد الفساد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کا پہلا قدم تعلیمی نظام میں اصلاحات نہیں ہوتا۔ اب وقت آچکا ہے کہ ارباب اقتدار نہ صرف اپنے قومی بیانیے پر نظر ثانی کریں بلکہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لئے سنجیدگی سے کوشش کا آغاز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).