مشرق کیا ہے، مغرب کیا ہے


عام آدمی کی تو بات ہی کیا، ہمارے اہلِ دانش کے ہاں یہ روش عام ہے کہ وہ پوری دنیا کو دو دھڑوں میں منقسم دیکھتے ہیں۔ ایک دھڑا ”مغرب“ ہے تو دوسرا ”مشرق“۔ اُن کے ہاں مغرب کوئی جغرافیائی نہیں بلکہ ایک سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی حقیقت ہے۔ مغرب یا ویسٹ کا لفظ آتے ہی سیکولر ازم، جمہوریت، فرد کی آزادی ایسے تصورات فرض کر لیے جاتے ہیں۔ اور مشرق کو روحانیت یا مذہبیت کے مترادف مان لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار تو نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ لفظ ”مشرق“ کو اسلام کے متبادل کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد اسلامی تہذیب لے لی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر دو دھڑوں کے بارے میں بات ایسے انداز سے کی جاتی ہے، گویا ان دو کے درمیان کچھ مشترک نہیں اور اس دنیا میں بسنے والی دیگر تمام اقوام اسی ثنائی نظام کے حوالے سے ہو سکتی ہیں۔

جسے ہمارا دانشور مغرب کہتا ہے وہ کوئی ابدی تہذیبی اکائی نہیں بلکہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ مثال کے طور پہ براعظم آسٹریلیا تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے بھلے ہی اس مغرب جیسا ہو جسے عموماً مغرب سمجھا جاتا ہے لیکن جغرافیہ اور محل وقوع کے اعتبار سے آسٹریلیا مغرب کا حصہ نہیں ہے۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں ہونے والی حالیہ دہشت گرد کارروائی پر کچھ لوگ اسے مغربی تمدن کی ناکامی قرار دینے لگے۔ لیکن اس حیرت میں دکھ بھی شامل ہو گیا جب چند اہلِِ دانش نیوزی لینڈ کے عوام کے غیر معمولی ردِ عمل اور وزیر اعظم جیکنڈہ آرڈرن کی معاملہ فہمی کو دیکھ کر مغرب کی اخلاقی برتری کا اعادہ کرنے لگے۔ اس کشتی میں دونوں فریق یہ بھول بیٹھے کہ نیوزی لینڈ تو مغرب میں ہے ہی نہیں۔

فی زمانہ تہذیبوں کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ بہت کم ہے۔ عوام کی تو بات کیا، خواص بھی جو کچھ جانتے ہیں وہ سیموئل ہنٹنگٹن جیسے متعصب اور دھڑے باز سیاسی دانشوروں کے ذریعے سے ہے۔ مثلاً یہ نظریہ کہ مخالف تہذیبیں ٹکراتی ہیں۔ اور چونکہ مشرق اور مغرب دو متضاد تہذیبی روایتوں کے امیں ہے اس لیے ان میں جنگ ہو کے رہے گی۔ ہمارے اکثر سیاسی اور ثقافتی تجزیے اور اسی کشمکش کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہاں مشہور ہندوستانی معیشت دان اور فلسفی امرتیا سِن ہماری فکری نشو و نما کو آتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ تہذیبیں بند ڈبوں میں نہیں پھلتی۔ اور دنیا کو کو اتنی آسانی سے تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ جسے مغرب کہتے ہو، وہ سارا مغرب نہیں ہے اور جسے مشرق سمجھتے آئے ہو وہ مشرق نہیں ہے۔ مغرب کسی یکساں تہذیبی روایت کا علم بردار ہے اور نہ مشرق۔ مغرب آج دین اور سیاست کو جدا سمجھتا ہے تو یہ روایت ہندوستان میں پہلے سے رائج تھی۔ عین اس وقت کہ جب یورپ میں مذہب کے نام پر لوگوں کو زندہ جلایا جا رہا تھا، شہنشاہ اکبر نے ایک ایسی تہذیبی روایت کی بنیاد رکھی جو بلا تفریقِ مذہب تمام ہندوستانیوں کو قابلِ قبول تھی۔ پھر چین اور افریقہ کا کیا جائے۔ ان کو کس ڈبے میں بند کریں گے۔ مشرق یا مغرب؟

اپنے تجزیوں میں غلطی ہم یہ کر رہے ہیں کہ مشرق کا لفظ ہر اس ثقافتی مظہر کو بیان کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو سیاسی مغرب سے باہر ہو۔ اور ہر اس شے کو مغربی قرار دے رہے ہیں جو اس سے باہر ہو جسے ہم مشرق سمجھتے ہیں۔

یہ سمجھانا کس کا کام ہے کہ مشرق اور مغرب کوئی موری بند ڈبے نہیں جن کے آر پار کچھ نہیں جا سکتا۔ اور اگر کسی طرح ان کو ایک ڈبے میں بند کر بھی دیا جائے تو بھی ایک ایک ڈبے کے اندر اتنے متفرقات ہیں ہے کہ ڈبا کسی بھی جگہ سے پھٹ سکتا ہے۔ بدعنوانی کی کئی قسمیں ہیں۔ ان میں سب سے زہریلی قسم علمی بد دیانتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).