اسلامو فوبیا ہی کیوں


دہشت، خوف اور درد یہ تین لفظ انسانی فطر ت کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہے ہیں۔ جب کبھی یہ لفظ انسان کے دماغ میں آئے تو دماغ میں ایک انجانا ساوسوسہ پیدا ہواکہ نجانے کیا ہو گیا ہے، کیا ہو رہا ہو گا یا کیا ہو گا۔ ان لفظوں کوسننے کے بعد دماغ میں جو بھی رزلٹ آ تا ہے وہ ان ہی لفظوں کی طرح خوفناک ہی ہوتا ہے۔ دہشت خوف اور درد یہ تین لفظ ہمیشہ غیر معمولی اور دہشت زدہ واقعا ت کے متعلق ہی ہوتے ہیں چاہے وہ قدرت کی طرف سے بھجیی ہوئی کوئی مصبیت ہوئی یا انسان کی خود کی تخلیق کردہ۔

ان دونو ں کی جب اصلی حالت سامنے آتی ہے تو لال رنگ خون سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ خون کسی بھی حا لت میں انسانی فطرت کے لیے موزوں نہیں رہا۔ جذباتی اور حیرت زدہ صورتحا ل اس حا لت کی عکاسی کرتاہے۔ دہشت خوف اور درد کی صورتحال اگر انسانی فطرت سے پیدا ہوئی ہے تو اس کے اثرات پورے انسانی معاشرے میں ایک فرق ایک رنگ پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ واقعہ یا وہ حا دثہ ہمیشہ اسی فرق اور رنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا آج گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے انسانو ں کی اس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے انسان اس سے واقف ہے۔ اگر کچھ اچھا ہو رہا ہے اس کو انسانی فطرت آسانی سے اپنے اندر سما لیتی ہے لیکن اگر کہیں بھی کچھ بھی غلط ہو رہا ہے تو وہ اس انسانی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ جنگ وجدال اور قتل و غارت انسان کے وجود سے ہی اس کے ساتھ ہیں۔ دنیا میں اکثر بڑی جنگیں حق اور باطل اور ریاستوں کے بیچ ہوئی ہیں۔ لیکن قتل و غارت جب بھی ہوئی ہے اس کے پیچھے ہمیشہ انسان کا جاہلیت پن رہا ہے۔

بیسیوں اور اکیسویں صدیں میں قتل و غارت کے واقعات میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ اکیسویں صدی کے پہلے پانچ سالوں میں اس معاشرے کے بیچ ایک فرق پیدا کیا۔ اور وہ فرق انسانیت، لسانیت اورمذاہب کا تھا۔ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک اس صدی کا پہلا سال انسانیت، لسانیت اور مزاہب کے بیچ دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ اس گھناونئے اور خوفنا ک حملے میں موقع پر تین ہزار کے قریب انسانی جانیں جانیں ضائع ہوئیں جس میں دنیا کے بہت سے مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسا ن شامل تھے۔

لیکن اس کے بعد پیدا ہونے والے نقصان کی صورتحا ل سے کئی ممالک اور انسانیت کے معاشرے کی ایک دیوار اور ہی پختہ ہو گئی ہے۔ عراق، افغانستان اور پاکستان کے تیس کروڑ انسان اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ 29 ممالک کا ملٹری اتحاد آج دو دہائی گزارنے کے باجود افغانستان میں موجود ایک سوچ کو شکست نہیں دے سکا۔ اس ملٹر ی اتحا د کی لیڈر شپ یہ بات سمجھ چکی ہے کہ ہماری لڑائی اس سوچ کے خلا ف نہیں تھی بلکے ان چند لوگو ں کے خلاف تھی جنھوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ان کو پکڑنے کے لیے جو راستہ چنا گیا وہ غلط تھا جن لوگوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی آج ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن وہ لوگ انسانیت کے قاتل اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں انڈیا میں دو ہوٹل پر ایک ایسا ہی واقعہ پھر رونما ہوا۔ ایک سو اسی کے قریب انسان پل بھر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔  مقصد پھر ایک ہی جیسا تھا خوف اور دہشت کی فضاء پیدا کرنا۔

دو ہزار پندرہ میں پیرس میں پھر ایک انسانیت سوز واقعے نے انسانیت کو شکست دی اب کی بار یہ مختلف تھا حملہ آور غیر مسلم تھے۔ ایک سو تیس افراد ایک مرتبہ پھر لقمہ اجل بن گئے۔ دو ہزار اٹھارہ میں ایک مرتبہ پھر امریکا کے شہر ٹیکساس میں ایک درسگاہ میں ایک اندھا دھند فائرنگ سے بارہ ننھی اور معصوم جانیں اس دنیا کو خیر آباد کہہ گئی۔ اب کی بار بھی جو مارنے والا تھا وہ غیر مسلم ہی تھا۔ اور اب دنیا کا وہ خطہ جو اپنی سیا حت کی وجہ سے مشہور ہے اس خوفناک حا دثے کا ٹا رگٹ بنا۔

اب کی بار ٹا رگٹ ایک عبادت گاہ تھی۔ جہاں سے صرف انسانیت کی بھلائی، بھائی چارہ، محبت اور امن کی دعایئں کی جاتی ہیں۔ پانچ منٹ کے اس حادثے نے پچاس بے گنا ہ افراد کی جانیں لے لی۔ اب کی بار بھی مارنے والا ایک غیر مسلم تھا۔ انسانوں کی جانوں کا قاتل کوئی بھی ہو اس کی پہچان مذہب کے بغیر ہوتی ہے۔ اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ انسانی شکل میں ایک درندہ ہوتا ہے۔ افغانستان اور امریکہ کے ذمہ داری قبول کرنے والے اپنے آپ کو اسلام کا پیروکار کہتے تھے لیکن ٹیکساس، پیرس اور نیوزی لینڈ حملے کے ذمہ دار مذہب اسلام کے پیروکارتو نہیں ہیں۔

اگر آج دنیا میں کچھ بھی کہیں غلط ہو رہا ہے تو مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا تا ہے انسانیت کے بیچ ایک دیوار کھڑی کر کے اسے مذہب اسلام کے ساتھ جوڑا دیا جاتا ہے۔ امریکہ اور انڈیا میں ہونے واقعات کے ذمے داروں کو اسلام کے ساتھ جوڑا گیا۔ حا لا نکہ خود ان کے ممالک نے ان کو ناپسندیدہ شہری قرار دیا۔ مغربی میڈیا اور معاشرے میں جس طر خ اس کی تصویر پیش کی جاتی ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلا م میں تو ایک انسا ن کا قتل پوری انسانیت کا قتل سمجھا جاتا ہے۔ مذاہب کی اس تصویر کو مٹانا ہو گا جو انسانیت کے بیچ لکیر پیدا کرے۔ دنیا کے تما م مذاہب انسانیت کی بھلائی کا درس دیتے ہیں۔ اسی درس اور تعلیم کو لے کر آگے بڑھنا ہو گا اسی میں اس دنیا کی بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).