کرائسٹ چرچ مسجد حملہ: فیصل عباس نے ٹائلٹ میں چھپ کر اپنی جان کیسے بچائی؟


فیصل عباس

کرائسٹ چرچ کے رہائشی سردار فیصل عباس جو مسجد پر حملے کے وقت ادھر موجود تھے

میں نے اپنے دوستوں کو میسیج کیا:

مسجد میں فائرنگ ہوئی ہے۔ پلیز ٹرپل ون ڈائل کریں۔ بہت سی گولیاں چلی ہیں۔

پھر میں نے دوسرا میسیج پاکستانی دوستوں کو کیا جو ڈیڑھ بجے کے بعد جمعہ کی نماز کے لیے آتے ہیں۔

مسجد میں فائرنگ ہوئی ہے، یہاں مت آئیں۔

یہ پیغامات ہیں کرائسٹ چرچ کے رہائشی سردار فیصل عباس کے جنھوں نے مسجد النور پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے دوران مسجد کے بیت الخلا میں بیٹھ کر مختلف لوگوں کو بھجوائے۔ بی بی سی کے طاہر عمران نے ان کے ساتھ سکائپ پر گفتگو کی۔

فیصل عباس مضبوط اعصاب کے مالک نوجوان ہیں تاہم جب وہ مجھ سے بات کر رہے تھے تو ان کی آواز کی لرزش سے پتا چلتا تھا کہ اس واقعے نے ان کے اعصاب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

لرزتی آواز کے ساتھ انھوں نے گفتگو کے اختتام پر مجھ سے کہا کہ میں اب سونے جا رہا ہوں اور شاید مجھے نیند کی گولیاں لینی پڑیں تاکہ میں سکون کی نیند سو سکوں۔

جس ہولناک تجربے سے وہ گزرے ہیں اس کا اندازہ ان سے گفتگو کرتے ہوئے لگایا جا سکتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ابھی بھی اس صورتحال سے دوچار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اکثر ڈیڑھ بجے تک مسجد پہنچ جاتا ہوں۔ اس بار میں ایک بج کر پینتیس منٹ پر مسجد پہنچا اور اپنے جوتے رکھنے کے بعد میں وضو سے قبل سیدھا ٹائلٹ میں داخل ہوا۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ میں وضو کے بغیر مسجد پہنچا ورنہ عموماً میں دفتر سے وضو کر کے مسجد پہنچتا ہوں۔’

مجھ سے پہلے بیت الخلا میں ایک صومالی بھائی موجود تھے اور اندر داخل ہوتے ہی جب فائرنگ کی آواز آئی تو مجھے لگا کہ شاٹ سرکٹ ہوا ہے کیونکہ یہاں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک دم خیال فائرنگ کی جانب جائے۔

’اس کے بعد باقاعدہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ پہلے میں نے نکلنے کی کوشش کی مگر تیز فائرنگ کے بعد میں پھر واپس اندر چلا گیا۔ مجھے ایسے لگا کہ ایک سے زیادہ لوگ ہیں اور میں سمجھ گیا کہ یہ حملہ آور کمروں میں جائیں گے۔ اور اس مسجد میں اتنے کمرے نہیں تھے۔ تو خوف کے عالم میں اس کے بعد میں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔’

فیصل کہتے ہیں کہ انھوں نے کچھ دیر بعد اپنے خیالات کو مجتمع کر کے ہنگامی مدد کے لیے ٹرپل ون کال کرنا شروع کی مگر کال نہیں ملی۔ اس کے بعد انھوں نے وٹس ایپ اور ٹیلی گرام پر دوستوں کو میسیج کرنا شروع کیے کہ مسجد مت آئیں اور ٹرپل ون پر کال کریں۔ ان کے مطابق کچھ دوستوں نے اسے مذاق سمجھا۔

کرائسٹ چرچ

بالآخر فیصل کی کال ایک بج کر 43 منٹ پر مل گئی۔

حملہ آور ایک بج کر 37 منٹ پر آیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ‘جب میری کال ملی تو میں نے انھیں حملے کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ فون پر دوسری طرف موجود شخص نے بڑے تحمل سے مجھے پولیس سے منسلک کیا۔ اس دوران میں نے ہر گروپ میں میسیج کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیے تاکہ جو کوئی بھی دیکھے وہ اس جانب رخ نہ کرے۔‘

پولیس نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمیں بتاتے رہیں اور چند منٹ کے وقفے سے وہ مجھ سے سوالات پوچھتے رہے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں ہوں تو میں نے اپنی جگہ بتائی اور اس کا محل وقوع بتایا۔

اس کے کچھ دیر بعد پولیس آ گئی۔ جنھوں نے مجھ سے پوچھا اور مجھے ہاتھ اٹھا کر بیت الخلا سے باہر نکلنے کے لیے کہا۔

کرائسٹ چرچ

فیصل نے بتایا کہ ‘جب میں باہر نکلا۔ مجھ سے پہلے جو شخص بیت الخلا میں تھے وہ شہید ہوئے پڑے تھے۔ بائیں جانب میں نے گیلری میں دیکھا تو دو اور افراد شہید ہو چکے تھے کیونکہ ان کے جسم بے حس پڑے تھے۔ جب میں باہر آیا تو جوتے رکھنے کی جگہ کے پاس دو لاشیں پڑی تھیں۔ باہر ایک سیاہ کپڑوں میں ملبوس خاتون کی لاش پڑی تھی۔’

جس دورانیے میں پولیس آپریشن جاری تھا اس وقت ایمبولینس کو آنے کی اجازت نہیں تھی اور فیصل کے مطابق ‘ایک تعمیراتی کمپنی کا ملازم آیا جس نے مجھے اپنی گاڑی میں زخمیوں کو ڈالنے کا کہا۔ ہم نے چار افراد کو ان کے گاڑی میں ڈال دیا۔ اس کے بعد ہم واپس آئے تو علاقے کی ناکہ بندی ہو چکی تھی اس لیے ننگے پیروں مجھے گھر واپس چھوڑ دیا گیا۔’

فیصل نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ ‘اس کے بعد فون کالز آ رہی تھیں۔ کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ مجھ سے پہلے کون سے پاکستانی آتے ہیں تو میں ان کو کال کرنا شروع کیا۔ بہت ساروں نے نہیں اٹھایا اور بہت ساروں نے اٹھا لیا۔’

فیصل نے کہا کہ ‘ایمانداری سے اگر آپ ابھی مجھ سے کہیں کہ فیصل ابھی تم میسیج کرو، تم یہ بھی سوچو کہ کتنی گولیاں چلی ہیں اور یہ فیصلہ کرو کہ کس کو پہلے کس کو بعد میں میسیج بھیجنا ہے۔ میں یہ نہیں کر سکوں گا۔ میں نے اپنی بیوی کو میسیج تب کیا جب سارا معاملہ ختم ہو چکا تھا۔’

کرائسٹ چرچ

فیصل کا کہنا ہے کہ شاید یہ ان کلموں کا اثر تھا جو میں نے پہلے تین بار پڑھے تھے مگر بعد میں مجھے سات آٹھ لوگوں نے کہا کہ ‘تمھارے میسیج نے ہمارے قدم روک لیے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ اگر میں نہ بچتا تو سات آٹھ لوگ تو بچ جاتے۔ بس یہی مجھے ایک خوشی تھی۔’

جب میں نے پوچھا کہ اس دہشت گرد کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے یہ حملہ کیا تو فیصل نے کہا ‘جب میں گھر آیا تو سب سے پہلے میرا انڈین ساتھی مجھ سے ملنے آیا پھر میرا جنوبی افریقن ساتھی ملنے آیا اور وہ ساری رات ہمارے پاس بیٹھے رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کے اس کے بعد ہمارے پاس دو نیوزی لینڈ کی دوست ملنے آئیں اور بہت دیر ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں اور انھوں نے ہمارے لیے کھانے کا بندوبست بھی کیا۔ ’ان کو ندامت اور افسوس اتنا تھا کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد کہتی تھیں کہ سوری تمہارے ساتھ ایسے ہوا۔ اگلے دن ایک ایک امدادی کارکن ہمارے پاس آیا اور ہمیں گلے لگاتا اور کہتا کہ ہم معذرت خواہ ہیں اور ہم شرمندہ ہیں۔’

کیا ان کی روح پر لگا یہ گھاؤ مندمل ہو پائے گا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے گہرا سانس لیتے ہوئے فیصل کا کہنا تھا ‘ہر کوئی مجھے کہہ رہا تھا کہ یہ ایک طرح کی دوسری زندگی ہے اور اللہ کا قرب حاصل ہونا ہے۔ بات یہی ہے کہ آپ نفرت کو نفرت سے نہیں مار سکتے۔ آپ کو نفرت کو پیار سے مارنا ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp