کریم سروس کی اوریانت اور گھر سے بھاگتی بے غیرت لڑکیاں


آپ سے کوئی سوال کرے کہ آپ کتنے غیرت مند ہیں؟

تو آپ کا جواب شاید یہی ہو گا یا آپ یہی سوچیں گے کہ میری بہن بے پردہ نہ گھومے۔ میری ماں بڑھاپے میں بھی میرے باپ کی وفادار رہے۔ میری بیوی میری باندی بن کے رہے باندی نہ بھی ہو۔ مگر میرے ہر غلط رویے پے بس شور شرابا نہ کرے ویسے تو مجھے اف بھی انتہائی ناگوار گزرتی ہے۔ اور ہاں میری بیٹی میری پسند کے مطابق شادی کر لے، جہاں میں کہوں وہیں۔ کیونکہ ہم دیسی لوگوں کی پسند کی شادی والی حسرت تو اولادوں پر، وہ بھی بیٹیوں پر پوری ہوتی ہے۔

اس سے بہتر غیرت کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

غیرت کا لیول ہر معاشرے میں مختلف ہو سکتا ہے مگر چونکہ میرا تعلق ایک مشرقی خاندان سے ہے تو میرے غیرت تو عورت سے شروع ہوتی ہے اور عورت پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ صرف غیرت ہی نہیں، گفتگو کا موضوع بھی عورت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اور تو اور کسی دوسرے دوست یا جاننے والے کو لعن طعن کرنی ہو تو تب بھی ماں بہن کا سہارا ہی لیا جاتا ہے۔ کیونکہ شرم یا غیرت کا تعلق تو عورت ذات سے ہے، مرد سے تھوڑی ہے۔

لیکن آج میں ذکر کروں گا ایک بے ہودہ سی ایڈ کا، وہ ہے کریم سروس کا ایڈ۔ بہت سے بے ہودہ اشتہار دیکھے، فلمیں دیکھیں مگر اس سے مطلب ہر گز یہ نہ لیجئے گا۔ کہ میں نے غلط ذہن سے دیکھیں۔ بس اس وجہ سے کہ لوگوں کی اصلاح کرنا مقصود تھیں۔ جیسے قبلہ اوریا مقبول جان صاحب کرتے ہیں۔ ایسے زاویے سے ہر چیز کو دیکھتے ہیں۔ کہ لوگوں کو بتا سکیں کہ قوم کی اصلاح کیسے کرنی ہے۔ جس طرح کچھ عرصے پہلے کیو موبائل کی ایک ایڈ کی طرف ہم سب کی توجہ مبذول کروائی تھی۔ کہ گھر سے بھاگی ایک بے غیرت لڑکی باپ کی مرضی کے خلاف نکل پڑتی ہے۔ اور اپنا مقصد پا لیتی ہے۔ مگر اس میں ایک قابل ذکر نکتہ جو انہوں نے اٹھایا وہ کیمرہ مین کا غلیظ کردار تھا۔ جس نے لڑکی کے جسم کے نازک حصوں کو اس قدر فحش طریقے سے فلمایا کہ مردانہ نازک اعضا کی کئی سوئی ہوئی حسیں بیدار ہو گئیں۔

اس بات کو ہوئے ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ کچھ دن پہلے کا عورت مارچ جس میں ڈک پکس کے حوالے سے مختلف بینرز تھے وہ سب کو ازبر ہیں۔ یہاں ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔  جس پر نہ صرف اوریا مقبول جان کہ حق تلفی ہوئی۔ بلکہ مردانہ معاشرے میں سب کے حقوق متاثر ہوئے۔ ابھی یہ سب تھما نہیں تھا کہ آج جب میں اکبر چوک لاہور سے گزرا۔ اور ایک بے ہودہ کریم سروس کا اشتہار دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ اور سوچا کہ کہاں گئے وہاں کے ایس ایچ او اور وکیل ان پر مقدمہ درج کیوں نہ ہوا۔ سو موٹو بنتا ہے۔ یہ میرا فنڈامینٹل رائٹ ہے جو سلب ہو رہا ہے۔

ہماری ہونے والی بیویوں کو بھاگنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایک دم تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ ماں باپ نے اتنی مشکل سے جو لڑکی راضی کی ہے۔ وہ یہ ایڈ دیکھ کر بھاگ گئی تو کیا ہو گا۔ اور تو اور یہ ایڈ ایسی جگہ پر لگائی گئی ہے جس کے نیچے دو ہومیوپیتھک کی دکانیں بھی ہیں۔ یعنی آپ کیا سبق دینا چاہتے ہیں کہ لڑکی کے مطابق لڑکے کا علاج نہیں ہوا تھا۔  اوہ خدایا کیسے کر لیتے ہیں یہ سب اشتہار والے۔

 ہم مردوں کو گالی دی جا رہی ہے۔ ہماری تضحیک کی جا ری تھی۔

اشتہار تھا۔ (اپنی شادی سے بھاگنا ہو تو کریم بائیک کرو)

بھلا اپنی شادی سے کون بھاگے گا۔ جس معاشرے میں ہر لڑکی سے اس کی شادی پر رضامندی لی جاتی ہو۔ وہاں کون بھاگنا پسند کرے گا۔ بھائی آپ نے ایڈ دینی تھی تو اس کو بہتر طریقے سے بنا سکتے تھے۔ اس میں باپ لڑکی کو کریم پر شادی ہال چھوڑنے جا سکتا تھا۔ یا “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” کی طرح امریش پوری اپنی بیٹی کو خود بھگا سکتا تھا۔ اور کہتا، جا سمرن، جی لے اپنی زندگی کریم بائیک کے ساتھ۔

نہیں مگر دیا بھی تو کیا کہ اپنی شادی سے بھاگنا ہو تو کریم بائیک کرو۔

بے شرمی کی حد تو یہ ہے کہ بائیک پہ بھاگو۔ بھلا شادی کا لہنگا پہن کے بائیک پہ بیٹھا جاتا ہے، کار بھی کہہ سکتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس گھٹیا ترین ایڈ پر کریم سروس والوں کو معافی مانگنی چاہیے۔ ا ور آپ سب کو اس کا بائیکاٹ تو کرنا چاہیے۔

ہمارے خاندان کی لڑکیوں کو بھاگنے کے مشورے دے ریے ہیں حالانکہ اس سے پہلے تو انہیں پتا نہیں تھا کہ بھاگا کیسے جاتا ہے۔ وہ بھی بائیک پہ۔

آپ اپنی لوک داستانوں کو بھی فلما سکتے تھے، بینرز کا حصہ بنا سکتے تھے کہ کس طرح ہیر، سسی اور سوہنی نے والدین کے پسند کے لڑکوں کے ساتھ زندگی گزار دی۔ مگر ان کو یہ سب کہاں سمجھ آتا ہے۔

اور تو اور وینا ملک صاحبہ نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ (اپنے کاروبار کے لئے ہماری تہذیب اور اقدار سے مت کھیلیں) ہاں آپ ٹاپ لیس ہو کے ٹیٹو بنا کے یا بگ باس میں جا سکتی ہیں، اس میں کو ئی غلط بات نہیں ہے۔ مگر دیکھیں اس طرح سے نہ بھگائیں لڑکیوں کو۔

اوریا مقبول جان صاحب نے کہا تھا کہ جو عورت حجاب پہنتی ہے وہ 170 بلین ڈالر کی انڈسٹری پے لات مارتی ہے۔ میرا خیال ہے جو گھر سے بھاگے گی، وہ بھی زیادہ نہ سہی، چالیس پچاس بلین پہ لات تو مارے گی۔ پہلے ہی اکانومی کا برا حال ہے۔ میں اوریا صاحب سے ریکوسٹ کروں گا کہ ایسی ایڈز کے لئے کوئی لائحہ عمل بنوائیں۔ تاکہ یہ بے غیرت لڑکیاں ایسی ایڈز دیکھ کر گھر سے بھاگنے سے باز آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).