اسلام آباد کے شہری دودھ نہیں زہر پی رہے ہیں


مادر وطن میں عموما صحافت سیاست اور سیاست دانوں کے گرد گھومتی ہے جن کی وجہ سے ملک کے بہت سارے شعبے بدحالی کا شکار ہے۔ میں نے بحیثیت ایک نوجوان تحقیقاتی صحافی جو ایک انگریزی روزنامے سے گزشتہ دو سال سے وابستہ ہے، اسلام آباد میں ملنے والی خوراک پر تحقیق کی جس کے بعد چودہ طبق روشن ہوگئے اور پتہ چلا کہ ملک کا دارالحکومت ہونے کے باوجود خوراک کی حالت ابتر ہے۔

میں نے دو ماہ پہلے اپنی تحقیق کا آغاز اسلام آباد میں استعمال ہونے والی تازہ دودھ سے کیا اور اپنی تحقیقاتی سٹوری کے لئے مسلسل ایک ماہ کام کیا اور اسلام آباد کے ہوٹلوں میں سپلائی ہونے والا تازہ دودھ کے مختلف نمونے اکٹھے کرکے ان کو معائنے کے لئے ایک سرکاری لیبارٹری میں بیج دیا اور کچھ دنوں کے انتظار کے بعد آخر کار دودھ کے نتیجے انے شروع ہوئے جو اسلام آباد کے شہریوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں کیونکہ اسلام آباد کے ہوٹلوں میں سپلائی ہونے والا دودھ زہر جیسا ہے۔ تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ اسلام آباد کے دو سو اسی چھوٹے بڑے ہوٹلوں کو چالیس روپے کلو میں ملنے والا چالیس ہزار کلو دودھ نہ صرف غیر معیاری ہے بلکہ صحت کے لئے سخت مضر ہے۔

اپنی تحقیق کے لئے ہم نے اسلام آباد کے ایک ڈیری فارم سے دودھ کے نمونے اکٹھے کیے جو تقریبا اسی فیصد اسلام آباد کو دودھ سپلائی کرتا ہے اور طبعی معائنے کے بعد خوراک کے ماہرین نے انکشاف کیا کہ اس دودھ میں دور دور تک کوئی صحت بخش غذا نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ یہ دودھ نہ صرف پنجاب فورڈ اتھارٹی کے معیار پر پورا نہیں اترتا بلکہ صحت کے لئے مضر بھی ہے۔ مزید تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ اسلام آباد میں دودھ سپلائی کرنے والے ڈیری فارمز انڈیا سے سمگل شدہ غیر معیاری پاؤڈر استعمال کرتے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کلو کے حساب سے سپلائی ہوتا ہے۔

تحقیق سے مزید پتہ چلا کہ پانی کے پورے ٹینکر کو پانی سے بھر کر اس میں انڈین پاؤڈر کی ایک بوری ملائی جاتی ہے اور پھر ٹینکر کو اطراف میں گھما پھرا کر دودھ خود بخود بن جاتا ہے۔ تحقیق کے لئے مختلف ہوٹلز سے بھی دودھ کے نمونے اکٹھے کیے گئے جو ڈیری فارمز کے نمونوں سے ملتے جلتے تھے۔ تحقیق کے لئے ہم نے دو ڈیری فارمز کے مالکان سے بات کی کہ ہم اسلام آباد کے اندر چائے کا ایک ہوٹل کھولنا چاہتے ہیں اور ہمیں روزانہ کی بنیاد پر تین سو کلو دودھ چاہیے جس پر مالک نے حامی بھر لی اور کہا کہ اپ کو چالیس روپے کلو کی ریٹ سے دودھ سپلائی کی جائے گی جس پر ہم نے سوال پوچھا کہ اسلام آباد میں اپ کتنے ہوٹلز کو دودھ سپلائی کرتے ہیں تاکہ ہمیں یقین ہوجائے کہ اپ کا دودھ لوگ استعمال کرتے ہیں جس پر مالکان نے کہا کہ تقریبا تین سو سے زائد ہوٹلز ہمارا دودھ استعمال کرتے ہیں۔

ہماری تحقیقاتی سٹوری پبلش ہونے کے بعد اسلام آباد کے انتظامیہ میں کہرام مچ گیا اور مختلف جگہوں پر ناکہ بندیاں شروع ہوئی کیونکہ اسلام آباد کے دیہاتی علاقوں میں چالیس ہزار کلو سے زیادہ دودھ پنجاب کے شہر گجرانوالہ سے سپلائی ہوتا ہے جن کے نمونے بھی ہم نے اکٹھے کرکے لیبارٹری سے چیک کروائے جس میں ان کے نتائج دوسرے دودھ سے بھی بدتر تھے اور دودھ میں مختلف غیر معیاری چیزوں کے استعمال کا انکشاف ہوا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ہماری رپورٹ کو من گھڑت قرار دیا اور کہا کہ اسلام آباد میں کوئی ایسا دودھ نہیں پایا جاتا۔

جب اسلام آباد کی انتظامیہ نے ناکہ بندیاں شروع کی اور پنجاب کے شہر سے سپلائی ہونے والے دودھ کے معائنے شروع کیے تو وہ غیر معیاری اور مضر قرار دیے گئے جہاں تین راتوں میں پچاس ہزار لیٹر سے زیادہ دودھ ضائع کردیا گیا جب کے سپلائی کرنے والے ڈرائیوروں کو گرفتار کیا گیا۔ انتظامیہ نے ایک مقامی ڈیری فارم پر چھاپہ مار کر موقعے پر جعلی دودھ کی فیکٹر ی سیل کردی اور ہزاروں کلو کی تعداد میں انڈیا سے سمگل شدہ غیر معیاری پاؤڈر بھی قبضے میں لیا گیا جبکہ یہاں پر بھی بیچارے مزدوروں کو پکڑا گیا اور انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے درندے مالکان سر عام گھوم رہے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا اسلام آباد کی انتظامیہ کے لئے ایک چیلنج ہے۔

اسلام آباد میں وقتی طور پر دودھ زہریلے دودھ کی سپلائی تو بند کی گئی مگر دوبارہ سے شہر اقتدار میں یہی زہر آلودہ دودھ کی ترسیل شروع ہوگئی جو نہ صرف ہوٹلوں میں عام لوگ چائے کی صورت میں پیتے ہیں بلکہ ان ڈیری فارمز سے عام شہری بھی دودھ لے کر اپنے شیرخوار بچوں کو پلاتے ہیں جس ان کی صحت کے نہ صرف غیر تسلی بخش ہیں بلکہ زہر ان کے بدن میں شفٹ ہورہا ہے۔

شہر اقتدار ہونے کے باوجود اج تک فوڈ ریگولیٹری باڈی نہیں بنائی جاسکی اور پورے اسلام آباد کے لئے صرف دو فورڈ انسپکٹر ہیں ایک ایسے وقت میں جب شہر کے آبادی بیس لاکھ کے قریب ہے تو باقی اپ ہی بتائیں کہ کیا اسلام آباد کے شہری دودھ کی شکل میں زہر نہیں پی رہے؟ یقیناً پی رہے ہیں۔

صحافی کا تعارف
عبداللہ ملک پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے سے وابستہ ایک نوجوان تحقیقاتی صحافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).