عافیہ اس قوم کی بیٹی نہیں ہے


عافیہ صدیقی کو قوم کی بیٹی اور پاکستان کی بیٹی کہنے والے اتنا جان لیں کہ وہ امریکن شہری ہے، وہیں کی پڑھی ہوئی ہے، وہیں اس نے شادی کی۔ دہشت گرد تنظیموں سے اس کے روابط اور ان کی سہولت کاری ثابت شدہ ہے۔ وہ افغانستان سے پکڑی گئی اور اس کی معصومیت کا ایک ثبوت ایک بے حد وزنی فوجی رائفل چھین کر ”دھائیں دھائیں“ گولیاں چلانا ہے۔

عافیہ طالبان کی بہت بڑی مددگار رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاکرات میں طالبان کی طرف سے دوسری بڑی شرط عافیہ صدیقی کی رہائی ہے۔ انکار کرنے والے تحقیق کر لیں۔

جہاں تک تعلق ہے مذہبی جماعتوں کا توں وہ ”عافیہ قوم کی بیٹی“ اور اس پر مذہب کارڈ استعمال کر کے صرف اور صرف ووٹ بٹورنے اور سیاست چمکانے کی کوشش کرتی رہی ہیں جو وہ ہمیشہ سے کرتی آئی ہیں۔

مگر سادہ لوح پاکستانیوں کے لئے اتنا عرض ہے کہ ”کسے ملک دا ہتھ دروازے چہ نہیں آیا“ (کسی ملک کا ہاتھ دروازے میں نہیں آیا) کہ وہ ایک عام، معصوم اور بے فائدہ لڑکی پر کروڑوں ڈالر خرچ کر کے اس کو پکڑے، پھر اس کا ٹرائل کرے اس اور پر ملین خرچ آئیں اور پھر اس کو سزا دے کر پوری دنیا کو جواب دیتا پھرے۔
ذہن پر زور ڈالتے ہوئے اس کو تھوڑا استعمال کرتے ہوئے کامن سینس استعمال کرنا بھی کسی چڑیا کا نام ہوتا ہے۔

لیکن ہمارے لیے تو بس بندے کا مسلمان ہونا اس کی سچائی، بے گناہی اور معصومیت کے لیے کافی ہے۔ جو کہ غلط ہے۔ بندے کی کریڈیبیلٹی، سچ و جھوٹ، صحیح و غلط، انصاف و نا انصافی اور اچھائی و برائی کا معیار مذہبی وابستگی سے بالا تر ہونا چاہیے اور یہی مہذب قوموں کا خاصہ ہے۔

پر کیا کیجئے کہ ہمارے ہاں گنگا الٹی ہے کیونکہ یہاں ایک بندے کہ حمائیت یا مخالفت کا فیصلہ اس کی سیاسی یا مذہبی وابستگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نہ کہ میرٹ اور اصول پر۔ اور یہ وتیرہ پاک و ہند میں آج سے نہیں صدیوں سے ہے۔ تاریخ کھول کر دیکھ لیں۔

ہم نے بیرونی حملہ آوروں، لٹیروں، غاصبوں کو نہ صرف اپنا ہیرو مانا بلکہ اپنی خود ساختہ تاریخ میں ان کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بھیانک خود فریبی کا شکار بھی بنایا۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم یہ تک بھول گئے کہ اس جھوٹی تاریخ سے آراستہ ذہن ان بچوں کا جب باہر کی دنیا سے واسطہ پڑے گا اور اصل تاریخ سامنے آئے گی تو اس کے دو رزلٹ نکلیں گے۔ یا تو وہ اپنی اسی خود ساختہ تاریخ و متشدد ہیروز کے فلسفہ پر ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے باقی سب کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے ان سے نفرت کریں گے۔ یا پھر ان پر یقین کرتے ہوئے اپنے ملک سے ہی باغی ہو جائیں گے۔ نتائج دونوں ہی خطرناک ہیں۔ اور ہم اپنے ارد گرد ایسے کئی کرداروں کا عملی مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے برعکس ہم نے وہ مقامی لوگ جنہوں نے اپنے مٹی اور جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے ان بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کیا یا ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ان کو اول کا ذکر اول تو اپنی تاریخ میں لاتے ہی نہیں اور اگر مجبوراً لانا پڑ جائے تو پھر منفیت کے رنگ میں کہ پڑھنے والا ان سے نفرت کرنے لگے۔ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں تھے؟

میرا خیال ہے کہ ادبی و تاریخی منافقت کی یہ ایک تکلیف دہ ترین مثال ہے جو کہ نسانی قدروں کو پس پشت ڈال کر مذہبی بنیادوں پر دروازے رکھی گئی حلانکہ مذہب کی تو بنیاد ہی انسانیت اور انسانی اقدار ہیں۔

یہ ہماری مذہب کے نام پر کی گئی ”کانی ونڈ“ ہی ہے کہ مٹی سے محبت کرنے والے مقامی لوگوں کا ذکر تک جس تاریخ میں نہیں ملتا وہیں بیرونی حملہ آور جو کہ مقامی لوگوں پر افراد کی طرح ٹوٹتے تھے اور لوٹ مار کر کے چلتے بنتے تھے ان کی من گھڑت تعریفوں کے بوجھ سے ہماری تاریخ کی کمر ٹوٹ چکی۔ مگر صاحب لوگ بضد ہیں کہ یہی سچ ہے کہ دلی کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا احمد شاہ ابدالی اور پنجاب کے کھیتوں کو خون سے سیراب کرنے والے دوسرے ہی ہمارے قومی ہیرو ہیں اور عبدللہ بھٹی، رائے احمد خاں، بھگت سنگھ، رنجیت سنگھ وغیرہ سب کے سب لٹیرے جو ایک مومنانہ قسم کی اسلامی حکومت کے فرشتہ صفت مسلمان حکمران کے باغی تھے۔

چلو ہم مان چکے کہ یہی سچ ہے! تو پھر جب لوٹ مار، جنگ و جدل، حملہ آوری ہی ہماری تاریخ ٹھہری اور مٹی سے محبت کرنے والے مقامی لوگ غدار ٹھہرے تو پھر ایسی تاریخ پڑھنے والوں سے شکوہ کیسا؟ اگر وہ مٹی کی محبت سے نا بلد ہیں تو پھر اچنبھا کاہے کو۔ جب وہ اپنی زمین پر ایڑیاں رگڑ کر چشمے جاری کرنے کی سعی کے بجائے دوسروں کی سرزمین پر موتی چننے چلے جاتے ہیں تو اس پر الزام تراشی کاہے کی۔ بھئی جو پڑھایا تھا اس پر عمل ہو رہا ہے برداشت کیجیے۔

اجاڑ راتوں میں رہتے دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اس میں اگنے لگے اندھیرے، تو دل میں کیا ملال رکھنا

حملہ آور تو حملہ آور ہوتا ہے اس میں اچھا حملہ آور کیا اور برا کیا۔ مگر یہاں، برصغیر پاک و ہند میں اس کے بھی الگ الگ معیار ہیں۔ اور حملہ آوروں کی بھی اقسام ہیں۔ مسلمان حملہ آور اور غیر مسلم حملہ آور۔ پہلی قسم کے حملہ آور بہت ہی نیک، اللہ کی طرف سے برصغیر کی طرف رحمت کا ذریعہ اور امن و انصاف کے پیکر تھے۔ کیونکہ وہ مسلمان تھے۔

ان میں یہاں کے مندروں سے خزانے لوٹنے کے لیے آنے والے لٹیرے بھی شامل ہیں اور اپنے بھائیوں کو قتل کروا کر ٹوپیاں سینے والے بادشاہ بھی۔

ان میں گھوڑوں کے شوقین اور کار سلطنت سے نابلد نشئی، عورتوں کے رسیا، ہم جنس پرست، بے مقصد عمارتیں اور قلعے بنانے والے، اپنی سیاست و حکومت کے لیے مذہب کا ملغوبہ تیار کرنے والے اور وہ جنہوں نے ذاتی خواہشات کی تکمیل اور محلاتی سازشوں کے علاوہ ایک تنکے کا کام نہیں کیا غرض ہر قسم کے حکمران شامل ہیں۔

یہ سب مسلمان تھے اس لئے اپنی تمام تر نالائقیوں، چیرہ دستیوں، لوٹ مار اور ظلم و جبر کے باوجود پاک صاف، عظیم ہیرو، اور زمین پر خدا کا سایہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والے غدار، برے، منفی کردار اور تاریخ کے ویلن ہی جو اسلام کی تبلیغ کے لئے آنے والے ان بیرونی حملہ آوروں میرا مطلب ہے تبلیغیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

حملہ آوروں کی دوسری قسم غیر مسلموں کی ہے۔ جن میں سکندر اعظم، انگریز وغیرہ آتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم برا کہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں تھے۔ تو چاہے انھوں نے یہاں اب پاشی، ریلوے اور باقی جو بھی نظام دیے یہ لوگ سامراج اور لٹیرے ہی پڑھے جاتے ہیں۔

حالانکہ اگر موازنہ کیا جائے تو انگریز دور میں مغل و عہد سلاطین کی نسبت زمین آسمان کا فرق ہے اور انگریز دور میں برصغیر جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوا۔ مگر ہم ان لوگوں کو بد ترین کہتے۔ میں یہ تو نہیں کہتی کہ ان حملہ آوروں کی حمایت کی جائے، کیونکہ کسی بھی قوم کی زمین پر قبضہ کسی بھی صورت اور کسی بھی رنگ میں نا پسندیدہ ہے۔ مگر میں یہ ضرور کہتی ہوں کہ ہم ادبی و تاریخی منافقت چھوڑیں اور تمام حملہ آوروں بلکہ تمام انسانوں کو ان کے کردار، انسانی اقدار اور میرٹ پر پرکھیں نہ کہ ان کے مذہب یا کسی دیگر وابستگی کو بنیاد بنا کر۔ اور اسی بات کا درس ہمارا مذہب دیتا ہے۔

”اور کسی قوم کی بے جا حمایت یا مخالفت تمہیں نا انصافی پر مجبور نہ کرے“
اور جس دن ہم نے یہ کر لیا اس دن تاریخ بھی درست ہو جائے گی اور ہم بھی اچھے اور مہذب لوگوں کی صف میں آجائیں گے۔

اس دن اس ملک کی اقلیتوں اور اکثریت کے درمیان شکوے شکائتیں اور تحفظات ختم ہو جائیں گے۔ اس دن شدت پسندی کی موت ہو جائے گی اور انسانیت جیت جائے گی۔ خیر یہ تو جب ہوگا تب ہوگا ابھی بات عافیہ صدیقی کی ہو رہی ہے۔

تو عرض یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے اس کی رہائی کا کریڈٹ لینا بند کریں کیونکہ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق اس کی رہائی طالبان کی ڈیل کا حصہ ہے نہ کہ پی ٹی آئی کا کوئی کارنامہ (طالبان نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے: ادارہ)۔ اور یہ کوئی ایسی قابل فخر بات ہے بھی نہیں کہ کس کا سہرا اپنے سر باندھا جائے۔ عوام سادہ لوح ہیں مگر قائدین تو نہیں ناں۔ مگر ہم نے تو بحیثیت قوم وتیرہ ہی بنا لیا ہے کہ بس کریڈٹ ہونا چاہیے چاہے کوئی بھی۔

یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر جا بجا لکھا ہے ”جو عافیہ کو لائے گا۔ لیڈر وہ کہلائے گا“۔ خدا کا خوف کرو اور کچھ تو خیال کرو بھائیو۔ عافیہ پر سنگین قسم کے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے کے الزامات ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ثابت شدہ ہیں۔ اب اس کو قوم کی بیٹی اور اس کو رہا کرنے والے کو لیڈر قرار دینے والے خود ہی غور فرما لیں کہ آپ کی قوم کی رول ماڈل بیٹیاں اگر یہ ہیں تو پھر مریم شہید، عرفہ کریم، ملالہ یوسف زئی اور علم و ادب، امن و تہذیب اور حب الوطنی میں نام کمانے والی خواتین کہاں کھڑی ہیں۔ اور یہ کہ بحیثیت قوم آپ کا پوری دنیا میں کیا چہرہ ابھرتا ہے۔ لہذا منافقت کو اللہ حافظ کہیے اور انسان کو انسانی اقدار و اصولوں کی کسوٹی پر پرکھنا سیکھیے نہ کہ مذہبی وابستگی کی اندھا دھند تقلید کرتے ہوئے ( جس کو خود مذہب بھی نا پسند کرتا ہے ) ۔

اسی بارے میں: پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، اپنے حقِ آزادی کی منتظر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).