’’آ فائن بیلنس‘‘ ایمرجینسی کے دور کی کہانی


کچھ دن پہلے بڑی ہی عمدہ اور دل چسپ کتاب ہاتھ لگی۔ لکھنے والے روہنتوں مستری ہیں۔ مستری کینیڈین لکھاری ہے۔ پیدا تو وہ ہندوستان میں ایک پارسی گھرانے میں ہوئے، مگر بعد ازاں کینیڈا ہجرت کر گئے۔ ان کا یہ ناول ’’آ فائن بیلنس‘‘ 1995ء میں شایع ہوا۔ کینیڈین ادبی ایوارڈ گِلر اپنے نام کیا اور مشہور ادبی ایوارڈ بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ ہوئے۔ اس ناول کے علاوہ مستری متعدد کتابوں کا مصنف ہیں۔ جن میں کچھ کتابوں کے مخلتف زبانوں میں تراجم اورکچھ کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ مستری کی زیادہ تر کہانیاں ہندوستان کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ پارسیوں کی مذہبی زندگی اور ان کے رسم ورواج اور اقدار وغیرہ کی بھی کہیں کہیں جھلک نظر آتی ہے۔ مختصرا یہ کہ ان کی بہت سی کہانیاں ہندی ناسٹلیجیا کے گرد گھومتی ہیں۔

کچھ کہانیاں زندگی کی حقیقتوں سے اس طرح جڑی ہوتی ہیں کہ یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کہانی پیس آف فکشن ہے یا حقیقت نگاری کا پَرتَو۔ میرے لئے اس ناول کو تعلیمی یا نصابی طریقہ کار سے سمجھنا بہت سہل رہا۔ بس دماغ میں ایک سوال نامہ تیار کیا۔ جیسے کہ اس ناول کا فنی تجزیہ کریں؟ نیز اس کے تاریخی اور سیاسی پس منظر وغیرہ پر روشنی ڈالیں؟

ایک بہترین ناول جس دور بھی میں لکھا جاتا ہے، وہ اُس دور کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ چاہے وہ سیاسی پہلو ہوں یا پھر معاشی اور معاشرتی۔ غرض زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو۔

ناول کی کہانی شروع ہوتی ہے ممبئی شہر سے گو کہ رائٹر نے براہ راست اس شہر کا نام نہیں لیا بلکہ اسے سمندر کے کنارے آباد شہر کہہ کر پکارا ہے۔ کہانی چند مرکزی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ جن میں اوم پرکاش اس کا چچا ایشور دارجی، دینا دلالئی اس کا بھائی نوشوان اور مانیک وغیرہ شامل ہے۔ دینا ایک پارسی لڑکی ہے۔ جو اپنے ماں باپ کے گزر جانے کے بعد بھائی کے تانوں سے بچنے کے لئے گھر سے باہر گھومتی رہتی ہے۔ اور رستم نامی لڑکے کے عشق میں گرفتار اس سے شادی کر لیتی ہے۔ چند سال گزرنے کے بعد ہی رستم ایک حادثے میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ اور دینا شادی نہ کرنے کا عزم لئے زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیلتی ہے۔ پھر اس کی ملاقات اوم پرکاش اور مانیک وغیرہ سے ہوتی ہے۔ یہ سب کردار کیسے ڈرامائی انداز میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور پھر اُسی ڈرامائی انداز میں الگ ہوتے ہیں۔ یہی اس کہانی کا پلاٹ ہے۔

ناول کا ایک حقیقی اور سیاسی پس منظر بھی ہے جس کا تانا ہندوستان میں لاگو کی جانے والی ہنگامی صورت احوال ایمرجنسی سے ملتا ہے۔ جو 25 جون 1975 سے 21 مارچ 1977 تک رہی جس کا دورانیہ اکیس مہینے تھا۔ یہ ایمرجنسی اندرا گاندھی کے دور حکومت میں لگی۔ اندرا گاندھی 1966 سے 1977 تک ہندوستان کی تیسری اور ہندوستان کی اب تک کی پہلی خاتون وزیر اعظم رہیں۔ فخر الدین علی احمد تب صدر تھے۔ فخرالدین ہندوستان کے پانچوں صدر 1974 سے 1977 تک حکومت کا حصہ رہے۔ اُنھی نے اندرا گاندھی کے کہنے پر ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 352 کا استعمال کرتے ہوئے یہ ہنگامی صورت احوال لاگو کی۔ ہندوستانی سیاست میں یہ ایک ڈرامائی موڑ تھا۔

ایمرجنسی میں ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں، طالب علموں اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ شہری آزادی اورحقوق سلب کیے گئے۔ مختلف مذاہب، پریس اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی۔ اسی دوران اگست 1975 کو بنگالی صدر مجیب رحمان کو ملڑی لیڈرشپ نے قتل کیا تو اس سانحے نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور ہندوستاں میں ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ اس سیاسی واقعے کی اپنی الگ طویل تاریخ اور وجوہ ہیں۔ بہرحال اس واقعے کو ہندوستانی جمہوریت کے سب سے متنازِع اور سیاہ باب کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اس ناول کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں بالی وڈ ادکار عرفان خان کا اپنے خط میں کہا ایک جملہ مسلسل ٹمٹماتا رہا تھا۔ ”کہ زندگی میں غیر یقینی ہی یقینی ہے‘‘۔ زندگی کی کسی بھی قسم کی پیشن گوئی کرنا بے وقوفی ہو سکتی ہے، اگلے لمحے کیا ہو کون جانتا ہے؟ یہ خط عرفان خان نے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد لکھا تھا۔ اس ناول کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ایک وقت احساس ہوتا ہے کہ یہ غربت، افلاس، بیماری اور بھوک وغیرہ کی کہانی ہے۔ پھر یہ پیار محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگلے ہی لمحے ایک حیرت انگیز سانحہ بن جاتی ہے۔

مستری ناول کو فنی اعتبار سے نبھانے میں بھی پوری طرح کامیاب ہوے ہیں۔ کرداروں اور حالات و واقعات کو انتہائی دل چسپ منطقی انداز میں جوڑ کر ایک ہی کینوس پر پیش کر دیا ہے۔ کہانی کے کردار بہت حقیقی اور پاورفل ہیں۔ ہر کردار اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جس میں آخرکار وہ شکست کھاتا ہے، مگر کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پر امید، پرسکوں زندگی کا متلاشی۔ ایک عام آدمی کیسے تاریخ کے بڑے اور غلط سیاسی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ یہی ان کرداروں کا بھی المیہ ہے۔

مستری شہری زندگی پر بھی گہری تنقید کرتا نظر آتے ہیں۔ جب کہ جگہ جگہ مزاح کے تڑکے نے بھی اس ناول کو پرلطف بنا دیا ہے۔ ایک جگہ دینا ایشور دارجی سے پوچھتی ہے کہ تمھارا بھتیجا بات نہیں کرتا۔ ہر وقت تمھی باتیں کرتے رہتے ہو۔ تو وہ جواب دیتا ہے۔ یہ تبھی بات کرتا ہے جب یہ کسی بات پر متفق نہ ہو۔

تَقریباً چھے سو صفحات پر مشتمل یہ ناول کہیں بھی آپ کو بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ میری تجویز ہے، کہ اس ناول کو ضرور پڑھا جائے۔

سورس:

گوگل براوزنگ، ویکپیڈیا، آ فائن بیلنس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).