پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، اپنے حقِ آزادی کی منتظر


اس تعلق سے اس کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کے لیے کوئی ڈیل نہ کی جا سکی۔ پرویز مشرف نے اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف ذرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہ کیے کہ بقول ان کے، یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔

حسین حقانی کا کردار اس سلسلے میں نہایت سفّاک ہے۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔ عدم تعاون کے حکومتی روئیوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ملک بھر سے رضاکار پورے خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ عافیہ کی رہائی کے لیے مسلسلسرگرداں ہیں۔

عافیہ کی رہائی کی اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما، صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گزرتا رہا۔ بلآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔

بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔ سوچنے کی بات ہے، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجّاد علی شاہ کے مغوی عزیز بحفاظت بازیاب ہو چکے ہیں۔ قوم نے بچشمِ سر دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کے لیے پوری انتظامیہ اورایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟

جب کہ عافیہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں! امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ بے گناہ شہریوں کا قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا۔ پھر ریمنڈدیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کر کے حکومتیسرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ ہزاروں پاکستانیوں کی موت اور معذوریوں کے ذمہ دار بھارتی جاسوس، کلبھوشن کی انسانی ہمدردی کے ناتے عزت افزائی عافیہ کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔

کیا عافیہ کا تعلق انسانی گروہ سے نہیں؟ اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی خاموشی سے امریکہ بھیجنے کی منصوبہ بندی ہے۔ نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران، قومی غیرت کی ڈالرز کے عوض سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے الفاظ کہ ”پاکستانی تو چند ڈالرز کے عوض اپنی ماں تک کو بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ “ وزیرِاعظم نواز شریف نے عافیہ کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔

آج وہ اس وعدے کی بے وفائی کے ایک اور داغ کے ساتھ نا اہل ہیں۔ پھر ایک سابق وزیرِاعظم نوازشریف ہی کیا، پچھلے 14 برسوں میں جنرل پرویز مشرف، میر ظفراللّٰہ جمالی، شوکت عزیز، نگراں وزیرِاعظم میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دورِحکومت گزر گئے۔ افتخار چوہدری، تصدق حسین جیلانی، وقارالملک اور انور ظہیر جمالیجیسے قابلچیف جسٹس اپنی مدتیں پوری کر گئے۔ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف بھی کارنامے انجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔

مگر عافیہ پر ظلم، اس کی رہائی، کسی کو، کبھی یاد رہی؟ استاد جامع ام القریٰ شیخ ابو محمد عبداللّٰہ المجازی فرماتے ہیں، ”اگر کوئی مسلمان عورت یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔ “ حال ہی میں عورتوں کے حقوق اور آزادی کے نام پر منائے جانے والے عالمی یومِ نِسواں میں قوم کی اس مظلوم بیٹی کی ناحق قید سے رہائی کی کوششوں کی کسی خواتین این جی او کی کوئی پروگریس، کوئی پیش رفت کیوں نہیں؟

 مشہورِ زمانہ ”عورت مارچ“ میں خواتین کے حقوق کے لاتعداد پوسٹرز میں عافیہ کے حقوق اور آزادی کا کوئی پوسٹر کوئی مطالبہ کیوں نہیں تھا؟ کیا وہ عورت نہیں؟ کیا وہ انسانیت کے دائرے سے باہر ہیں؟ ڈاکٹر عافیہ، امریکی قید میں ہر طرح کے جسمانی، روحانی اور اخلاقی تشدد سہنے کے باوجود بھی پاکستانی مسلمان عورت کے عنوان سے ناقابلِ تسخیر ہے۔ اس کا یہ استقلال خواتین کے حقوق کی جنگ کے علم برداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2