نعیم رشید کا مطالبہ: مجھے ایوارڈ نہیں، وطن دو


میں نعیم رشید اپنے لخت جگر طلحہ کے ساتھ سفر آخرت کی طرف گامزن ہوں۔ آپ لوگوں کی دعائیں کام آرہی ہیں اور آسانی کی سبیلیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اپنے لئے آپ حضرات کی ہمدردیاں دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ حیرانی ہوتی ہے۔ ارے میں جسم و روح کے ساتھ آپ کے بیچ میں تھا تو میری کیا قدر تھی؟ اب جبکہ آپ کے پاس صرف میری میت ہے تو کتنی قدر ہے؟ کیا سانسوں کا بوجھ نہیں سہارا جاتا آپ سے؟ کیا مزارات اور قبور ہی چاہئیں آپ کو؟ زندہ انسانوں کی کوئی قیمت نہیں؟ ظاہر ہے زندہ تو بول سکتا ہے، مطالبہ کر سکتا ہے، اس کی ضروریات ہیں، وہ حقوق و حساب مانگتا ہے۔ وہ کیسے برداشت ہو سکتا ہے۔

میں پہاڑی انسان جو اپنا گھر دسیوں مصائب و آلام کے باوجود نہیں چھوڑتا، مجھے اپنے گھر میں عزت امن و خوشحالی کی زندگی نہیں دے سکے آپ۔ اس کی تلاش نے مجھے اور مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں کو ترک وطن کی راہ دکھائی۔ مجھے ایوارڈ دینا چاھتے ہیں؟ کس چیز پر؟ اپنے وطن میں اپنے لئے عزت والی زندگی نہ حاصل کر پانے پر؟ اپنے صلاحیتوں کو اپنے ملک و قوم کے لئے استعمال نہ کر پانے پر؟ خود کو اور اپنی اولاد کو اپنی غریب الوطنی کی حالت میں بے بسی کے عالم میں بے قصور موت کے گھاٹ اترتا دیکھنے پر؟ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔

کیا آپ اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ میرے ہم وطن نوجوانوں کو عدل، امن، عزت و خوشحالی کی زندگی وطن میں دیں گے؟ کیا آپ وعدہ کر سکتے ہیں کہ میرے علاقے کو دوبارہ کسی کی جنگ میں جھونک کر کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا نہیں کروائیں گے؟ کیا قومی مفادات کو ترجیح دینے والی قیادت ہے آپ کے پاس؟ کیا آپ بھی آرڈرن کی طرح میرے پسماندگان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں؟ ان کے گلے لگ کے رو سکتے ہیں؟ یا صرف تصویریں بنوا سکتے ہیں؟ نہیں! آپ صرف میڈیا کی سرخیوں کی زینت بن سکتے ہیں۔ آپ اپنے تئیں نہیں بدل سکتے۔ نتیجتا ہم اسی طرح پہلی و دوسری دنیا کے ممالک میں تارکین وطن اور دوسرے درجے کے شہری ہی بنتے رہیں گے۔ اور وہاں کوئی کبھی ہماری وطنی حیثیت کو کبھی مذہبی حیثیت کو کبھی نسلی و لسانی حیثیت کو چیلنج کر کے ہمیں اذیتیں دیتا رہے گا۔ اور دھوبی کے کتے کی طرح گھر اور گھاٹ کے مابین طواف کرتے ہوئے ہم مٹتے رہیں گے۔

اگر کچھ کرنا چاھتے ہیں تو اس حوالہ سے کچھ کیجئے۔ کاش! میں اس ترک وطن کی بجائے آپ کے مسلط کردہ جبر کے خلاف مزاحمت کرتا اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کے لئے کوئی کردار ادا کرتا۔ آپ کا تو ہدف ہی یہی ہے کہ وطن میں نوجوانوں کی صلاحیت سے استفادہ کا انتظام نہ کیا جائے تاکہ وہ بیرون ملک، آپ کے فنانسروں کے لئے خدمات سر انجام دیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کے کھائے ہوئے ڈالروں کا قرض اتارنے کے لئے افغانستان کے راستے خیبر پختون خوا میں داخل ہونے والی گولی میرے اور میرے لخت جگر کے تعاقب میں آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ بھی داخل ہو سکتی ہے۔ میں وہاں بھی ویسا ہی بے بس تھا جیسا یہاں خیبر پختون خوا میں۔

میرے اعزاز کے لیے کوشاں ہم وطنو! میرے وطن کو وہ جنت بناؤ کہ یہاں سے کسی کو ترک وطن کا خیال بھی نہ گزرے۔ بلکہ لوگ اس میں سکونت پذیر ہونے کو ترجیح دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).