پانی کا سوال


پانی زندگی ہے۔ بلا مبالغہ ہزارہا مرتبہ سنے ہوئے اس جملے میں جو سچائی ہے اس کا مکمل ادراک وہی کر سکتے ہیں جن کی زندگی کے شب و روز اپنی رہائش تک پینے کا صاف پانی پہنچانے میں صرف ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ بلوچستان یا تھر کے رہائشی ہوں۔ اگر آپ پاکستان کے صنعتی مرکز اور سب سے متمدن شہر کراچی میں بھی رہائش پذیر ہیں تب بھی آپ کو اس مسئلے کا سامنا روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑسکتا ہے۔ بلکہ اگر آپ امریکہ کی ریاست ’مشی گن‘ کے شہر ’فلِنٹ‘ کے رہائشی ہیں تو بھی آپ کے گھر کی پانی کی لائن میں آنے والا پانی مضرِ صحت ہو سکتا ہے۔ شہریوں تک صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ اب غیر ترقی یافتہ خطوں سے ہوتا ہوا ترقی یافتہ خطوں تک پہنچ گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے سب سے اہم ضرورت تعیشات میں شامل ہوتی جا رہی ہے اور یہ بحران کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں ہے۔

ہمارے سیارے کی عمر 4.5 ارب سال سے کچھ زیادہ ہے اور یہاں پانی کی موجودگی کے آثار بھی قریباً اتنے ہی پرانے ہیں۔ زمین پر زندگی کی شروعات 4.3 ارب سال پہلے ہوئی۔ چند ایک جانداروں، جن کا پانی کا استعمال انتہائی کم ہے، کو چھوڑ کے باقی تمام جانداروں کی حیات کا دارومدار پانی کے کثیر استعمال پر ہے۔ بلکہ زیرِ آب جو دنیا آباد ہے وہ خشکی پر موجود دنیا سے زیادہ بڑی ہے۔ ہماری زمین کا 71 فیصد حصہ زیرِ آب ہے اور کُل پانی کا 96.5 فیصد نمکین سمندری پانی پر مشتمل ہے۔

اس کے علاوہ پانی ہوا میں آبی بخارات کی شکل میں، دریاؤں، جھیلوں، ندیوں، برفانی تودوں، زمین میں نمی، زیرِ زمین ’Aquifers‘ اور میرے اور آپ سمیت تمام جانداروں کے اجسام میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ یہ تمام پانی فریش واٹر یا تازہ پانی کہلاتا ہے جو کل پانی کے 2.5 فیصد سے 2.75 فیصد تک ہے۔ اس میں سے بھی 1.75 فیصد گلیشیرز اور برف کی صورت میں، 0.75 فیصد زیرِ زمین پانی اور زمین کی نمی کی صورت میں پایا جاتا ہے۔

0.01 فیصد سے بھی کم پانی ندیوں، جھیلوں اور دریاؤں میں موجود ہے۔ آبی چکر کی وجہ سے پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک شکل سے دوسری شکل میں مسلسل عازمِ سفر رہتا ہے اور اس سفر کے دوران اپنے راستے میں آنے والے تمام زندہ اجسام کی زندگیوں کو جلا بخشتا جاتا ہے۔ خشکی پر پائی جانے والی حیات میں سے چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر اعلیٰ درجے کے پودوں، پرندوں او ر جانوروں کی زندگیوں کا دارومدار اسی 2.5 فیصد تازہ پانی یا فریش واٹرپر ہے۔ تازہ پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً تمام قدیم تہذیبیں آسانی سے دستیاب تازہ پانی یعنی دریاؤں کے کنارے پر پروان چڑھیں۔ وہ دریائے گنگا و جمنا ہو، دریائے نیل ہو، دریائے امیزون ہو یا ہمارا سندھو دریا۔

صاف اور صحت بخش پانی کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے لیکن سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران میں یہ بنیادی انسانی ضرورت بھی ریاست فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان جیسی ازلی بحران زدہ ریاست تو اپنی جگہ مگر امریکہ میں بھی صاف پانی کی فراہمی دن بدن دشوار ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں پانی کے بحران پر بہت واویلا کیا گیا ہے اور پانی کے لئے تڑپتی عوام کو ”ڈیم“ کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جس پر ہم آگے بات کریں گے۔ ایک طرف پانی کی کمی کا رونا رویا جا رہا اور دوسری طرف نجی کمپنیوں کو زیرِ زمین اور دریاؤں کا پانی کوڑیوں کے بھاؤ دیا جا رہا ہے جس سے ان کمپنیوں کے منافعے آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور ان علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔

زمین پر پانی کی مقدار

کیا واقعی پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں؟ زمین پر موجود پانی کی مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو رہی۔ یہ مقدار ڈائنوسارز کے زمانے سے آج تک ایک جیسی ہی ہے لیکن کسی خاص وقت میں پانی کس شکل میں موجود ہے اس حقیقت سے پانی کے جاندار اجسام کے لئے قابلِ استعمال ہونے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے تازہ پانی کی ایک بڑی مقدار قابلِ استعمال نہیں رہتی اور کہنے کو وہ تازہ پانی کے ذخائر کا حصہ ہوتا ہے لیکن مضرِ صحت ہوتا ہے۔ زمین پر کل پانی کی مقدار 1,386,000,000 کیوبک کلومیٹر ہے۔ جس میں سے فریش واٹر 34,650,000 کیوبک کلومیٹر ہے۔ ایک کیوبک کلومیٹر پانی 1000 ٹریلین لیٹر کے برابر ہے۔ لیکن یہ تمام پانی زمین پر ہر جگہ یکساں مقدار اور آسانی سے دستیاب شکل میں نہیں پایا جاتا۔

بحران کی نوعیت

سوال یہ ہے کہ اگر پانی کی مقدار میں کمی نہیں آرہی توپھر پانی کے بحران کی نوعیت کیا ہے؟ پانی کاموجودہ بحران سرمایہ داری کے بحران کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ زمین پر بسنے والے محنت کش سالانہ 10 ارب انسانوں کی ضرورت کی خوراک پیدا کرتے ہیں لیکن پھر بھی زمین کی کل انسانی آبادی یعنی 7.5 ارب انسانوں میں سے کروڑوں انسان بھوک کا عذاب جھیلتے ہیں اورساری زندگی غذائی قلت کا شکار رہتے ہوئے ایک نامکمل انسان کے طور پر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

یہ سب غذائی اشیا کی کمی کے باعث نہیں ہے بلکہ منافع کی ہوس غذا کو انسانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔ ہوشربا مہنگائی اور مسلسل گرتی ہوئی اجرتوں نے غذا کو محنت کشوں کی دسترس سے دور کردیا ہے۔ منڈی میں مانگ کو برقرار اور قیمتوں کو اونچا رکھنے کے لئے بہت سی غذا یا تو گوداموں میں پڑی پڑی سڑ جاتی ہے یا سمندر برد کر دی جاتی ہے۔ پانی کا بحران بھی سرمائے کی لوٹ کھسوٹ سے جنم لینے والی ماحولیاتی آلودگی اور بے تحاشا اور غیر ضروری پا نی کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ منڈی کی اندھی قوتیں پانی کا وہ استعمال کرتی ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔ اب اس سارے معاملے میں اگر پانی آلودہ ہو جائے یا کسی ایسی شکل میں تبدیل ہوجائے جس کو دوبارہ خالص بنانے میں بہت دشواری ہو تو بھی سرمائے کے پجاری اس کی پرواہ نہیں کرتے اور پانی کا بے دریغ استعمال جاری رہتا ہے۔

واٹر فٹ پرنٹ (Water Footprint)

کسی بھی عمل میں پانی کے استعمال کی حد ’Water Footprint‘ کہلاتی ہے۔ جب بھی پانی استعمال کیا جاتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اپنی خالص شکل سے کسی غیر خالص شکل یا کسی ایسی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے فوراً یا آسانی سے بطورخالص پانی دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے کہ آبی بخارات، برف یا وہ پانی جو آپ کی کولڈرنک میں موجود ہے وغیرہ۔ اس کے علاوہ آپ کے کھانے پینے سے لے کر استعمال کی تمام اشیا کے پیداواری عمل میں پانی استعمال ہوتا ہے جو کہ اس چیز کا واٹر فٹ پرنٹ کہلائے گا۔

کوک کے واٹرفٹ پرنٹ پر کام کرنے والے ماحولیاتی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک لیٹر کوک بنانے میں قریباً 9 لیٹر پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک سوتی کاٹن کی ٹی شرٹ کا واٹرفٹ پرنٹ 2700 لیٹر جبکہ ایک جینز کی پتلون کا 10,000 لیٹر ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ فیشن انڈسٹری اس معاملے میں سب پر بازی لے جاتی ہے کیونکہ فیشن مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے اوراس تبدیلی کے حساب سے مسلسل جدید فیشن کے ملبوسات منڈی میں آتے رہتے ہیں۔

صرف فیشن انڈسٹری پر ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری میں ہر انسانی ضرورت کی چیز کو بار بار خریدنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ شرحِ منافع میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہے۔ ڈرنک انڈسٹری بھی زیادہ پانی استعمال کرنے والی انڈسٹریز میں شمار کی جاتی ہے۔ آدھا لیٹر سوڈا کے پیداواری عمل میں 170 سے 310 لیٹر تک پانی استعمال ہوتا ہے۔ ایک لیٹر بیئر میں 300 لیٹر اور ایک کپ کافی میں موجود اشیا کے پیداواری عمل میں 140 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

اس پیداواری عمل میں سب سے زیادہ پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے جہاں سے اناج یا کوئی اور جنس حاصل کی جاتی ہے۔ ایک کلو کپاس کی پیداوار میں 20,000 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے اور کپاس فیشن انڈسٹری کی بنیادی ضرورت ہے۔ پلاسٹک کی بوتل میں موجود ایک لیٹر پانی کا واٹر فٹ پرنٹ 2 لیٹر ہے۔ اسمارٹ فون کا واٹرفُٹ پرنٹ 910 لیٹر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 2.1 ارب سے 2.6 ارب اسمارٹ فون استعمال کرنے والے موجود ہیں۔

سال 2018 ء کے اختتام تک یہ تعداد 3.1 ارب تک پہنچنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اسمارٹ فونز کے جدید سے جدید ماڈل ہر ماہ متعارف کرائے جاتے ہیں اور اشتہاربازی کے ذریعے گاہکوں کو فون تبدیل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ہر سال 1.54 ارب اسمارٹ فون گاہکوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ سال 2007 ء سے 2017 ء تک 8.5 ارب اسمارٹ فون فروخت کیے گئے جن میں سے زیادہ تر اب کچرے کی صورت میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس دوران 7,783 ٹریلین لیٹر پانی استعمال کیا گیا۔ اسمارٹ فونز، جدید فیشن کے ملبوسات اور ڈرنکس۔ مڈل کلاس کنزیومرازم یا صارفیت کی اس سے بہتر تشریح اور کیا ہوگی؟

یہاں منڈی کو انسانی فلاح کا معیار ماننے کے نظرئیے کی محدودیت بھی نظر آتی ہے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ منڈی میں طلب اور رسد کی قوتیں توازن میں ہیں۔ لیکن ساری فطرت کے توازن کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بربادی اِس نظام کے اعداد و شمار اور اعشاریوں میں نظر نہیں آتی۔

ماحولیاتی آلودگی

پانی کے بحران کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی فیکٹری یا کارخانے سے نکلنے والا فضلہ بغیر ٹریٹمنٹ (صفائی) کے ماحول میں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ لیکن سرمایہ دار پیداواری لاگت کو کم سے کم کرنے اور شرح منافع بڑھانے کے لئے ان قونین کو خاطر میں نہیں لاتے اور انتہائی خطرناک کیمیائی اجزا کا حامل پانی ندی نالوں اور دریاؤ ں میں چھوڑ دیتے ہیں جس سے نہ صرف ارد گرد کی حیات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ یہ پانی جہاں جہاں تک پہنچتا ہے وہاں حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

فیکٹریوں اور کارخانوں کی پھیلائی گئی پانی کی آلودگی کا 20 فیصد کپڑے کی صنعت سے آتا ہے۔ کپڑے کی صنعت کا ماحول کو دیا جانے والا ایک اور خطرناک تحفہ ہے پولیسٹر (Polyester) کا ریشہ۔ یہ اسی میٹریل سے بنتا ہے جس سے پلاسٹک کی بوتل۔ جب ہم اپنے پولیسٹر والے کپڑے دھوتے ہیں تو ہزاروں مائیکرو فائبر کپڑوں سے نکل کر پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور وہ ہمارے فریش واٹر کے ذخائر میں چلے جاتے ہیں جہاں دیگر جاندار اس مائیکرو فائبر کی ہلاکت خیزی کا نشانہ بنتے ہیں۔

فیکٹریوں سے نکلنے والی زہریلی گیسیں اور فوسل فیول کا جلنا گرین ہاؤس ایفیکٹ کا باعث بنتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث زمین کا درجہ حرارت بڑھتاجا رہا ہے جس کہ وجہ سے آبی چکر میں خلل پڑ رہا ہے۔ سال کے جس وقت میں بارش ہونی چاہیے اس میں نہیں ہوتی اور جب نہیں ہونی چاہیے اس وقت طوفان آجاتے ہیں۔ فصلوں کو بر وقت پانی نہ ملنے کی وجہ سے اناج کی پیداواربھی متاثر ہوتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2