ڈاکٹر عافیہ صدیقی دہشت گرد یا قوم کی بیٹی؟


1990 سے پہلے عافیہ صدیقی کراچی کی تمام دوسری لڑکیوں کی طرح ایک عام سی لڑکی تھی جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں وہ امریکا منتقل ہوئی جہاں اپنی قابلیت کے بل بوتے پر وہ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئیں جو دنیا بھر کے طالب علموں کا خواب ہوتا ہے۔ ان کی زندگی میں نیا موڑ تب آیا جب 1995 میں انہوں نے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر امجد خان سے شادی کی۔ شادی کے بعد وہ سماجی زندگی میں متحرک ہوئیں اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے چلنے والی احتجاجی اور فنڈ ریزنگ مہم کا حصہ بنتی رہیں۔

2002 میں وہ اپنے خاوند کے ساتھ مل کر 10 ہزار ڈالر ز مالیت کے ہتھیار وں اور دیگر عسکری اشیاء کی آن لائن خریداری کی تو دونوں امریکی خفیہ اداروں کی نظروں میں آگئے۔ ایف بھی آئی کی پوچھ گچھ کے دوران امجد خان نے موقف اپنایا کہ وہ یہ ہتھیار شکار کھیلنے اور مہم جوئی کے لیے خریدے تھے جس کے بعد ان سے مزید کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ ایف بھی آئی کی نظروں میں آنے کے بعد امجد خان اور عافیہ صدیقی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور اگست 2002 میں عافیہ صدیقی نے امجد خان سے طلاق لے لی۔

2003 میں ڈاکٹر عافیہ اپنے تین بچوں کے ساتھ ٹیکسی میں کراچی ائیر پورٹ کے لیے نکلیں لیکن وہ ائیر پورٹ نہ پہنچ سکیں۔ یہاں سے ڈاکٹر عافیہ کی زندگی پر پر اسراریت کے سائے چھائے گئے۔

گمشدگی کے تین برس بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام ایک بار پھر میڈیا رپورٹس کی زینت بن گیا جب گوانتانامو بے میں قید رہنے والے پاکستانی نژاد برطانوی معظم بیگ نے اپنی کتاب The Enemy Combatant میں انکشاف کیا کہ بگرام ائیر بیس پر قید کے دوران ایک خاتون قیدی کی آواز اکثر سنائی دیتی تھی جو تشدد کے باعث بلند آواز میں چیختی رہتی تھی۔ انہوں نے خاتون قیدی کو ”قیدی نمبر 650“ کا نام دیا۔ 2005 میں طالبان کی قید سے رہائی کے بعد اسلام قبول کرنے والی صحافی یوآنے ریڈلے نے پاکستان کے موجود وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ قیدی نمبر 650 دراصل ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں جن کو پاکستان سے گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ ڈالروں کے عوض ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا ہے۔

دوسری جانب 23 ستمبر 2010 کو ایف بی آئی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 17 جولائی 2008 کو افغان فورسز نے غزنی سے گرفتار کیا تھا۔ اگلے دن ایف بی آئی اور سی آئی اے کے اہلکار ان سے تفتیش کے لیے پہنچے تو دوران تفتیش“ ڈاکٹر عافیہ نے پاس پڑی بندوق اٹھا کر امریکی اور افغان اہلکاروں پر فائرنگ کر دی لیکن جوابی فائرنگ میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہوگئیں۔ اس واقعے کے بعد ڈاکٹر عافیہ چند دن ہسپتال میں زیر علاج رہیں اور 4 اگست 2018 کو انہیں بگرام ائیر بیس سے نیو یارک منتقل کردیا گیا جہاں مین ہیٹن کی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر اقدام قتل کا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔

ان پر جن آٹھ الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا وہ تمام الزامات اقدام قتل اور آتشین ہتھیار کے استعمال کے حوالے سے ہیں۔ حالانکہ متعدد بار ان پر القاعدہ سے تعلقات کے الزامات لگانے کے باوجود دہشت گردی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ 3 فروری 2010 کو اقدام قتل کے آٹھ الزامات کے تحت انہیں 86 برس قید کی سزا سنائی گئی جبکہ اس اقدام میں کوئی زخمی تک نہیں ہوا تھا۔

2003 سے 2008 تک ڈاکٹر عافیہ کہاں رہیں؟ کیا قیدی نمبر 650 وہی تھیں؟ اگر وہ قیدی نمبر 650 تھیں تو امریکا نے پانچ برس تک ان کی گرفتاری کو کیوں چھپائے رکھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج تک جواب طلب ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اتنے برسوں تک امریکی حراست میں ہونے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کے خلاف دہشت گردی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان پر اقدام قتل کے سوا کوئی دوسرا الزام لگایا گیا۔

اس سے پہلے مئی 2004 میں امریکی اٹارنی جنرل نے عافیہ صدیقی کو القاعدہ کے 7 مطلوب ترین افراد میں شامل کر لیا تھا۔ تو کیا صرف طالبان کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھنے، ان کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے اور ان کے ساتھ رابطہ رکھنے پر ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ خود طالبان کو ابھی تک امریکا اور افغانستان سمیت کسی ملک نے دہشت گرد قرار نہیں دیا اور جس جرم کی پاداش میں وہ سزا کاٹ رہی ہیں وہ بھی دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔

رہی بات قوم کی بیٹی کہلانے کی، تو ڈاکٹر عافیہ پاکستانی شہری ہونے کے علاوہ ملک کے لیے کچھ بھی ایسا نہیں کیا جس پر انہیں قومی کی بیٹی کا خطاب دیا جا سکے۔ وہ ان لاکھوں پاکستانی نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو افغانستان پر امریکی حملے کو جارحیت قرار دیتے ہیں اور طالبان کو افغانستان کے اصل حکمران سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے اگر انہیں کوئی خطاب دینا بھی چاہیے تو وہ طالبان کی جانب سے دینا چاہیے کیونکہ وہ طالبان کے لیے عسکری پسندی کا راستہ چنا، ان کے لیے امریکا سے لڑائی مول لی اور ان کی مدد کرتے ہوئے گرفتار ہوئیں۔

عوامی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اقدامات کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ایک مشکوک کردار کو قوم کی بیٹی بنا کر پیش کریں جبکہ ریاست دہائیوں بعد خود کو عسکریت پسندوں کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).