گڈ مارننگ میسج اور ہراسمنٹ


ایک پاکستانی سیاستدان کے بیان نے انوکھی بحث چھیڑ دی ایسی کہ لوگ ہنس ہنس بے حال ہو گئے۔ اکثریت کو اس بے تکی بات نے خوب لطف دیا۔ کیا یہ بات اتنی ہی بے تکی ہے؟

کیا روزانہ کے گڈ مارننگ، گڈ ڈے کے میسج ہراسمنٹ کے زمرے میں آتے ہیں؟ کیا عورتوں کی ڈی پی پر ماشاءاللہ، حسین، خوبصورت چہرہ جیسے کلمات لکھنے ہراسمنٹ ہے، کیا غیر ضروری میسجز، واٹس آپ، فرینڈ ریکوئسٹس بھیجنا، پھر قبول نہ ہونے کی صورت میں میسجز بھیجنا کہ پلیز فرینڈ شپ قبول کی جائے ہراسمنٹ ہے؟ عوام الناس کی اکثریت، پکڑنا، روکنا، چھونا اور دبوچنا سے کم پر کسی چیز کو ہراسمنٹ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں اور نہ ہی جنسی ہراسمنٹ سے کم پر بات کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ جہاں اس قدر انتہائیں ہوں کہ عورت باہر نکلے تو بغیر پریشان ہوئے گھر کو لوٹ نہ سکے وہاں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں یقینا نظر انداز ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ہراسمنٹ ہے کیا؟ کیسے ہوتی ہے؟ کیا صرف جنسی ہراسمنٹ کا وجود ہے یا اس کے علاؤہ بھی کوئی قسم ہے جس کے بارے میں معاشرے کے مرد اور عورت کو باشعور کرنے کی ضرورت ہے؟ ویکی پیڈیا کے مطابق ہراسمنٹ لفظ ان بے شمار بیمار رویوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو دوسروں کو پریشان کرنے، مجروع کرنے یا تذلیل کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں یا ان کا باعث بنتے ہیں۔ یہ وہ رویے ہیں جو پریشان کن، اور نقصان کا باعث بن سکتے ہیں اور ان کی بنیاد وہ امتیازی بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے کوئی فرد اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے شرمین عبید چنائے کے ایک واقعہ نے اس موضوع کو اجاگر کیا تھا مگر پاکستانی معاشرے نے اس واقع کو اتنا ٹرول کر دیا کہ اس پوائنٹ کو واضح ہونے سے پہلے ہی دبا دیا گیا۔ ہمارے ہاں سچ کی آواز کو دبا دینے کا یہی طریقہ کار عام ہے جیسے اسمبلیوں میں ہمارے نمائندے اتنا چیختے ہیں کہ مخالف کی صحیح بات بھی کسی کان تک پہنچ نہ سکے۔ یہی روش ہمارا معاشرہ اپناتا ہے۔ صحیح بات پر بھی اتنا شور مچاتا ہے کہ کوئی نکلتے سورج کو سویرا سمجھ ہی نہ سکے، کوئی رات کے اندھیرے کو کالا نہ کہے۔ بس شور مچا کر ہر دماغ کو اس بات کا یقین دلایا دیا جائے کہ یہ جو روشنی ہے دراصل روشنی نہیں اندھیرا ہے۔

کیا واقعی گڈ مارننگ کے میسج بھیجنا ہراسمنٹ ہے؟ جی ہاں! ہر وہ کام جو بری نیت سے کیا جائے اور دوسرے کو پریشان کرے چاہے وہ دیکھنے میں کتنا ہی بے ضرر کیوں نہ دکھائی دے وہ ہراسمنٹ ہے۔ کہیں آپ کے گڈ مارننگ کے میسجز کے پیچھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی خواہش تو نہیں؟ آپ اپنے کام کی جگہ پر یا کسی بھی جگہ پر عورت کو کیوں متوجہ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ عورت آپ کی اس حرکت سے نالاں ہے تو یہ ہراسمنٹ ہے اور یقینی طور پر عورتوں کی اکثریت ان باتوں پر نالاں ہے۔

ہر وہ رویہ جو دوسرے کے لئے پریشانی کا باعث بنے ہراسمنٹ ہے۔ اگر کوئی آپ سے ملنا نہیں چاہتا تو کیا آپ روز ملنے اس کے گھر تک جائیں گے؟ نہیں ناں! تو پھر جو عورت آپ کے گڈ مارننگ نہیں چاہتی اسے روز صبح صبح گڈ مارننگ بھیجنا اتنا ہی ہراساں کرنا ہے جتنا روز گلی میں کسی کا راستہ روکنا۔ کیا گلی میں چلتے ہر مرد کو بھی آپ روز روک کر گڈ مارننگ کرتے ہیں؟ نہیں؟ تو پھر میسج فری اور ارزاں ہونے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ اخلاقیات کے معیار بدل دیے جائیں۔

ہراسمنٹ آنکھوں ہی آنکھوں میں بھی ہو جاتی ہے جب آپ کی نگاہیں کسی کا تعاقب کرتی ہیں۔ اس کا ثبوت دنیا کے پاس چاہے نہ ہو مگر کرنے والے کی نگاہ اور سہنے والے کا دل جانتا ہے کہ یہ ہراسمنٹ ہے۔ اگر آپ گلی میں کسی کے پیچھے جانے کو ہراسمنٹ سمجھتے ہیں تو فیس بک پر کسی کی ٹوہ میں رہنا بھی ہراسمنٹ ہے جب کوئی اسے پرائیویٹ رکھنا چاہے۔ اگر کسی کی پروفائل پبلک ہے اور فالورز کی اجازت ہے تو ضرور آپ فرینڈ ریکوئسٹ بھجوا سکتے ہیں لیکن اگر قبول نہیں کی جاتی تو آپ کا بار بار میسج بھیجنا ہراسمنٹ ہے۔

کیا آپ کو اندازہ نہیں آپ دوسرے کو پریشان کر رہے ہیں۔ کیا مہذب پن کا تقاضا نہیں کہ یہیں سے واپسی کا رخ کیا جائے؟ اگر آپ کے ہاتھ میں ایک سمارٹ فون اور اس میں چلتا ہوا میسنجر ہے تو اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ آپ جس کو چاہے میسج کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کسی بھی عورت کے گھر منہ اٹھائے پہنچ سکتے ہیں؟ نہیں! کیونکہ وہاں باپ بھائی یا شوہر ہو گا۔ لیکن فیس بک پر یا میسنجر پر ایسا کر سکتے ہیں، اور روز کرتے ہیں اور کرتے ہی رہتے ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ وہاں وہ اکیلی ہے، ں لکہ اکثر تو آپ کو یہ بھی شک ہے کہ پروفائل بھی خوب پرائیویسی سے رکھی گئی ہے تالے لگا کر، جو بھی بھیجا جائے گا سیدھا عورت کے ہاتھ میں پہنچے گا۔ یہی سوچ ہراسمنٹ کا باعث ہے جو آپ کو عورت کو سوشل میڈیا پر تنہا دیکھ کر اسے میسج بھیجنے پر اور روزانہ کی بنیاد پر گڈ مارننگ اور گڈ ڈے کے میسج کرنے پر اکساتی ہے۔ جب آپ نے عورت کی کمزوری کا یقین کر کے کچھ بھی کیا چاہے وہ گڈ مارننگ جیسا انتہائی شریف النفس سمجھا جانے والا اور بے تحاشا مہذب نظر آنے والا کام ہی کیا ہو تو یہ ہراسمنٹ ہے۔

آپ کا جو بھی کام دوسری کے لئے زحمت اور سٹریس کا باعث ہے چاہے وہ مرد کے لئے ہو یا عورت کے لئے ہراسمنٹ ہے۔ کیا یہ گڈ مارننگ آپ اس عورت کو باپ اور بھائی یا شوہر کے ساتھ جاتے دیکھ کر پیش کریں گے؟ اگر نہیں تو اقرار کیجیے کہ آپ ہراس کر رہے ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ یہ طریقہ ہراسمنٹ کا ایک جائز نوعیت کا سمجھا جانے والا، کچھ کچھ مہذب دکھائی دیتا طریقہ ہے جس سے آسانی سے خلاصی ہو سکتی ہے اور دوسرے بندے کو خموش کروایا جا سکتا ہے۔

، کیا اس کے پیچھے آپ کی نیت میں تعلقات بڑھانے کی خواہش شامل نہیں؟ ایک خاتوں پبلک پروفائل پر بیٹھی ہے، پروفائل پر تصویر بھی لگاتی ہے، وال پر لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیتی ہے تو آپ یہ فرض کر لیں کہ اب اس کے میسنجر میں پہنچ کر اس سے گپ شپ لگانا بھی آپ کا فرض ہے، کیا یہ ایک اخلاقی رویہ ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ میسنجر کسی کو فون کرنے کے مترادف ہے کیا آپ ایسے ہی منہ اٹھا کر بغیر مقصد کے ہر راہ میں ملنے والے یا دفتر میں کام کرنے والے کو فون کر دیتے ہیں؟

اگر میسنجر میں آپ سے گپ شپ نہیں لگائی جا رہی تو کیا آپ خموشی سے واپسی کا رستہ لیتے ہیں؟ نہیں؟ کیوں؟ کیونکہ آپ دروازے بجاتے رہنا چاہتے ہیں جب تک کھلتا نہیں۔ کیا یہ ہراسمنٹ ابھی بھی نہیں لگی آپ کو۔ کیا یہ حرکت آپ اس عورت کے گھر جا کر بھی کرنا پسند کریں گے جہاں آپ کی ٹانگیں بازو ٹوٹ جانے کا عظیم خدشہ موجود ہے؟ نہیں! تو پھر آپ جانتے ہیں کہ یہ ہراسمنٹ ہے۔

میں اپنی پروفائل پر اپنی تصویر لگاتی ہوں چونکہ میرا چہرہ میری پہچان ہے۔ مجھے دنیا جہان کے ہر شناختی کارڈ پر اس کی تصویر لگانی پڑتی ہے تو پھر فیس بک پر کیوں نہیں۔ میری فیس بک میں بظاہر بہت سے اعلی تعلیم یافتہ اعلی عہدوں پر فائز لوگ موجود ہیں۔ مگر ان کی قابلیت اکثر یہ میسنجر ہی آشکار کرتا ہے۔ کیا میرا ڈیپی پر تصویر لگانا صرف مردوں کو متوجہ کرنے کی کوشش ہے؟ کیا دنیا کی ہر عورت صرف مرد کی توجہ کی خاطر ڈیپی لگاتی ہے،  اپنی پہچان اپنے وجود کے احساس کے لئے نہیں؟

میں جانتی ہوں یہ ایک مشکل سے سمجھ میں آنے والی بات ہے خصوصاً ہمارے معاشرے میں جہاں ابھی کچھ سال پہلے اس قدر آزادی میسر آئی ہے عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے کہ ابھی کوئی بھی اس کے ضابطے اور اخلاقیات طے کرنے کا قائل نہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے سوشل میڈیا پر دنیا کی کوئی بھی کردار، اخلاق اور تہذیب کا کوئی وجود نہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں سڑک پر اکیلی چلتی عورت بھی ایک عجوبہ تھی ہزاروں لاکھوں عورتوں تک آسان رسائی ایک عقل وشعور مجروع کر دینے والا عمل ہے۔

محض ایک تصویر ڈیپی پر لگے تو کتنے ہی مہذب لوگ بہت ہی تمیز سے تھالی میں رکھ کر ماشاءاللہ پیش کرنے آتے ہیں بشرطیکہ عورت اپنے آپ میں رہتی ہو، ذرا سی گفتگو میں بے نیاز ہو تو وہاں پر دلوں کے اور آنکھوں کے ڈھیر انڈیل دیے جاتے ہیں اور اسے عین مذہبی فریضہ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ اگر میں آپ کے ماشاءاللہ کو لایک کروں، آپ کا شکریہ ادا کروں تو چلیں ٹھیک ہے آپ دوبارہ بھی کہیے لیکن اگر میں آپ کے کمنٹ کو پسند نہ کروں، نظر انداز کروں یا ڈیلیٹ کر دوں تو دوبارہ ہماری تصاویر کے قریب مت آئیے۔

یہ ہمارے لئے زحمت کا باعث ہے اور ہراسمنٹ ہے۔ آپ کا یہ رویہ مجھے دوسری بار تصویر لگانے سے روکے گا جو میرا حق ہے! دنیا کی ہر عورت مرد کو متوجہ کرنے کی کوشش میں جتی ہے یہ سمجھنا ہی اس ساری ہراسمنٹ کی جڑ ہے۔ ہزاروں عورتیں صرف اسی لئے تصویر نہیں لگا پاتیں کہ ہزاروں لوگ آس پاس ماشاءاللہ سبحان اللہ کا ورد لئے حاضر ہو جائیں گے۔ پیسے نچھاور کرنے والوں اور ماشاءاللہ کہنے والوں میں کتنے انچ کا فرق ہے؟ صرف طریقے کا! کہ دنیا کی ہر عورت کو صرف تماش بین کے طور پر دیکھنا بذات خود ایک ہراسمنٹ ہے جو ہر اس عورت کو تکلیف سے دوچار کرتی ہے جو تماشا نہیں۔ یہ رویہ اس مرد کی تذلیل ہے جسے خدا نے دنیا میں بہت اونچا مرتبہ دے کر بھیجا اور اس عورت کی بھی جیسے خدا نے بہت بڑا کام دے کر بھیجا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2