برینٹن ٹیرنٹ کا حملہ اور بڑے ممالک کا دوغلا پن


نیوزی لینڈ کے شہر کرائیسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملے نے جہاں کئی گھروں کو ماتمکدہ بنا کے رکھ دیا۔ کئی لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوئے وہیں اس حملہ نے دنیا کے حکمران ممالک خصوصاً امریکہ کی دوغلی پالیسی کو بھی واضح کیا۔ آسٹریلوی شہری برینٹن ٹرینٹ نے جس بے دردی سے گولیاں چلائیں اور ویڈیو کو براہ راست شئیر کیا، ایک عجیب قسم کی سفاکیت اور درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پر اصل میں جو چیز اہم ہے وہ اس دہشتگرد کا اپنی سوچ کی تشہیر کرنا ہے۔ جو کچھ اس نے اپنے اسلحے پر لکھا تھا اس پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔

اس کی بندوق پہ ”الیگزینڈر بیسونیٹ“ کا نام سب سے اوپر درج تھا، یہ وہ دہشت گرد ہے جس نے جنوری 2017 میں کینیڈا کے شہر کوبک کی ایک مسجد میں حملہ کرکے 6 نمازیوں کو قتل کیا تھا۔ اس کی بندوق پہ ایک ”بلیک سن“ کانشان تھا جو کہ یورپ کے قدیم جنگجوؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اینٹی ڈی فیمیشن لیگ کے مطابق ہٹلر کے وقت یہ نشان وائٹ سپریمیسی کو ظاہر کرتا تھا۔ ”14 یا 14 الفاظ“ بھی بندوق پہ لکھا ہوا تھا جو کہ ہٹلر کا نعرہ رہا ہے۔

”یہ رہا آپ کا مائیگریشن معاہدہ“ بندوق پہ درج یہ الفاظ اقوامِ متحدہ کے اس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جسمیں کینیڈا سمیت کئی یورپی ملکوں نے مائیگریشن کے قواعد و ضوابط طے کیے تھے۔ ٹرینٹ کی رائفل پہ ”ڈیلن رووف“ کا نام بھی درج تھا جس نے جنوری 2015 میں 9 افریقی۔ امریکی باشندوں کو امریکی ریاست ساتھ کیرولائنا کے چرچ میں قتل کیا تھا۔ اسلحے پہ ”آسکر مورِل“ کا نام بھی لکھا گیا تھا جس نے اگست 2016 میں نیویارک میں ایک امامِ مسجد اور اس کے ساتھی پر حملہ کیا۔ لندن کے ”ڈاؤن اوسبرن“ کا نام بھی بندوق پہ لکھا گیا جس نے 2017 مین مسجد سے نکلنے والے نمازیوں پر وین دوڑا دی جس کے نتیجے میں ایک نمازی جاں بحق ہوا۔

وائٹ سپریمیسی 1619 میں اس وقت پروان چڑھی جب ایک ڈچ کشتی نے 20 افریقی باشندوں کو امریکی ریاست کے کنارے اتارا۔ ان لوگوں کو ذلیل کیا گیا۔ طعنے کسے گئے، ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے۔ افریقہ کے تقریباً 6 سے 7 ملین باشندوں کو یورپ لایا گیا اور انہیں خوب اذیتیں پہنچائی گئیں۔ امریکی انقلاب کے بعد بھی وائٹ سپریمیسی کئی ممالک میں حاوی رہی۔ درمیان میں اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھتی رہیں۔ لیکن نوبت اس حد تک پہنچنا کہ براہ راست ویڈیو چلا کو لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنا شاید یورپ کے بھیانک مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔

برینٹن ٹیرنٹ کا منشور کئی سوالات اٹھانے پر مجبور کرتا ہے جو کہ اس نے حملہ سے کچھ لمحے پہلے وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن کو ای میل کیا۔ منشور میں اس نے اپنے آپ کو نسلی طور پر سفید فارم شخص ظاہر کیا جو یورپ کے سفید فارم لوگوں کے مستقبل کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اس نے تنوع کو یورپ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو یورپ کے لیے خطرناک حملہ آور قرار دیا۔ اس کے مطابق انگریز چونکہ مسلمانوں کی نسبت کم بچے پیدا کرتے ہیں تو مسلمان مستقبل میں یورپ پر حاوی ہوجائیں گے اس لیے ان کے نوجوان، بوڑھے، بچے عورتیں اور سب کو قتل کردیا جائے۔ مزید براں مسلمانوں کے بچوں کا قتل یورپ کے تمام بچوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بنے گا۔

منشور پہ پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تو آزادی سے پہلے برٹش کالونیز تھے یہ تو یورپ کا حصہ نہیں رہے تو کیسے برینٹن ٹرینٹ نے اپنے آپ سفید فارم لوگوں کا محافظ مان لیا۔ منشور میں اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ سپریمیسی کی پنڈت بیان کیا ہے۔ ٹرمپ نے بھی اس کا مان رکھا اور کرائسٹ چرچ حملہ کرنے والے کو دہشت گرد نہیں کہا۔

اس حملے کے نتیجے میں آنے والے ردِعمل بھی غور طلب ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جو کہ پہلے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اس حملے کے بعد صاف صاف کہہ دیا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے اور وہ دہشتگردوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ جب کہ امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ملا جلا ردِ عمل دیا ہے۔ اس حملے نے یہ واضح کیا کہ کون وائٹ سپریمیسی اور اسلاموفوبیا پھیلا رہا ہے اور کون اس کے خلاف ہے۔ نیوزی لینڈ تو وہ ملک ہے جس کی فوج کی تعداد بہت کم ہے اور پولیس سے ملک کا نظام چلتا ہے۔

اس کا سینہ اتنا چوڑا ہے کہ اس نے ہر طرح کی تنوع کو ضم کیا ہوا ہے۔ آسٹریلوی سینٹر فیزر ایننگ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور دنیا میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والے تمام ممالک کے سربراہان کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ تنوع کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ ان کو دورنگی چھوڑ کر یک رنگ ہونا پڑے گا اور دہشت گردی کو بجائے کسی مذہب سے جوڑنے کے اس کے سدباب بارے سوچنا ہوگا۔ یہ آگ اگر اسی طرح پھیلتی رہی اور پھیلانے والے خاموش رہے تو یورپ شاید بہت برے حالات کا سامنا کر سکتا ہے۔ برینٹن ٹیرنٹ کا کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملہ، اسلحہ پر ماضی میں وائٹ سپریمیسی پھیلانے والوں کے نام، منشور اور براہ راست ویڈیو چلانا ایک بہت ہی بھیانک سوچ کی ترجمانی تھی نہ کہ ایک شخص کی کارروائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).