سادگی ہی زندگی ہے


پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں کچھ ایسے واقعات نے جنم لینا شروع کیاجن کے بارے میں جان کر، پڑھ کر، سن کر یا پھر ٹی وی اسکرین پر ہاتھ دل پر رکھ کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے اور اپنی اولاد کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ ہمارے بچوں کی حفاظت کر ان کو نیک راہ پر چلنے کی توفیق دے ان کو حادثات سے بچا کر رکھ ہماری عزتوں کی حفاظت کرنا صرف تیرے ہاتھ میں ہے تو ہی کرسکتا ہے۔

کیونکہ کیاکبھی آپ نے سوچا ہے یا پھر کیا یہ آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنے گود کے بچے کو جھاڑیوں میں پھینک کر جنگلی جانوروں کے حوالے کردیں؟ یہ سوچ کر بھی جھرجھری آجاتی ہے اپنے بچوں کو سینے سے چمٹا لینے کا دل چاہتا ہے یا پھر کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کی بیٹی کالج جائے اور واپسی میں اسے انسانی بھیڑیے نوچ ڈالے اور جب آپ کو اس کی مسخ ذدہ لعش ملے تو آپ اسے صرف آنسووؤں اور سسکیوں میں دفنا سکے کسی مجرم کا گریبان پکڑ کر یہ نہ کہہ سکے کہ کیوں میری بیٹی کا کیا قصور تھا؟ کیا یہ کہ وہ ایک لڑکی تھی؟ کیوں میری بیٹی کو بے دردی سے مارڈالا؟ نہیں یہ سب سوچنا بھی سوہان روح ہوتا ہے تو پھرجن پر بیتی ہے ان کا کیا ہوتا ہے؟

مگر کیا میں یا آپ یا پھر ہم میں سے کوئی یہ سوچتا ہے کہ ان واقعات نے جب پچھلے کئی سالوں میں جنم نہیں لیا تو پھر یہ اب کیوں ہمارے معاشرہ میں جنم لے رہے ہیں کیوں ایدھی اور چھیپا ٹی وی پر آکر درخواست کرتے ہیں کہ انسانی جان کو یوں بے دردی سے مت پھینکے ہمارے پالنے میں ڈال دیں ہم پال لے گے یا پھر کیوں آج لڑکیاں اور ان کے والدین خوف کا شکار ہے ایسا کیا ہوا کہ ہمارے معاشرے میں انسانیت ختم ہونے لگی کیا اس سب کے پیچھے ہم تو قصور وار نہیں کہیں ہماری ہی غلطیاں ہماری اولادوں کو بے بس نہیں کررہی اور کہیں ہماری ہی وجہ سے جنگلی جانوروں کو انسانی گوشت کھانے کو نہیں مل رہا؟

اگر ہم آج سے تیس، پینتیس سال پیچھے چلے جائے تو ایسے واقعات شادونادر سننے کو ملتے تھے کیا کبھی غور کیا ایسا کیوں تھا؟ پہلے لوگ کہتے تھے روکھی سوکھی بھلی، سادگی کو پسند کیا جاتا تھا کہا جاتا تھا جہاں لڑکا نوکری پر لگے وہی گھر بسادو نکاح کرکے گھروالی، گھر لے آؤ سادگی سے زندگی گزارے گے تو شادی بوجھ نہیں محسوس نہیں ہوگی اور گھر والی کے ہوتے گھر میں ہی دل لگے گا اور آج نکاح کی تقریب سے پہلے منگنی، مہندی، مایوں اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکے والے لڑکی والوں کو جہیز کی ایک لمبی چوڑی لسٹ پکڑوادیتے ہیں جو اگر وہ پوری نہیں کرسکتے تو وہ بیٹی کو بیاہنے سے ہی قاصر ہوتے ہیں۔

ایسے میں معاشرہ میں زنا کاری کا عام ہوجانا کچھ عجیب محسوس نہیں ہوتا اور پھر اللہ کہ نہیں دنیا والوں کے خوف سے اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کو جیتے جاگتے وجود کو جھاڑیوں کے حوالے کرتے ہوئے بھی یہیں سوچا جاتا ہے کہ جائز، ناجائز کے سوالات اور جوابات سے بچنے کا واحد حل اور طریقہ اس وجود سے جان چھڑا لینا ہے اس وجود کو زندگی تو مل جاتی ہے ایدھی کے کسی سینٹر میں وہ زندگی گزارنے لگتا ہے مگر وہ ساری زندگی خود سے سوال کرتا رہتا ہے کہ اس کا کیا قصور تھا جو اسے دنیا کی نظروں میں مشکوک اور اچھوت بنا ڈالا۔

مگر یہ تو میں ایک طرف کی بات کررہی ہو ں دوسری طرف جو درد، تکلیف کی داستان رقم کی جاتی ہے اس پر خبروں کے چینل تصویریں چلا چلا کر والدین کے آنسووؤں دکھا دکھا کر ریٹنگ بڑھاتے ہیں اور وہ جب ہوتا ہیں جب انسانوں کے روپ میں بھیڑیے نوچ ڈالتے ہیں اور اس وقت بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار میڈیا ہے میڈیا فحش مواد عام کررہا ہے، میڈیا ہی قصور وار ہے، کیا صرف میڈیا قصور وارہے؟ کیا میں، آپ اور ہم سب قصور وار نہیں کیوں آج ہم دو وقت کی روٹی سے زیادہ بڑے گھر، مہنگے کپڑے، گاڑی، بینک آکاؤنٹ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کیوں آج ہم نے مال و زر کے پیچھے خود کو اتنا دیوانا بنایا ہے کہ ہم یہیں بھول گئے کہ ہمارا مذہب سادگی کو فروغ دیتا ہے ہمارا مذہب بیٹیوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے ہم نے کیوں آج نکاح کو ایک مشکل ترین عمل بناڈالا ہے اگر آج ہم نکاح کو آسان کریں گے تو ہمارے بیٹوں کا غرور اور ہماری بیٹیوں کی عزتیں محفوظ رہیں گے وہ بنا خوف کے جیے گی۔

یہیں وقت ہے جب ہم معاشرہ سدھارسکتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو دیر ہوجائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).