میڈم پرائم منسٹر آپ جیسا کوئی نہیں


ہمارے ملک میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں کو بم سے اڑا دیا گیا اور کئی مسیحی برادری کے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کیا کبھی ہمارے کسی لیڈر نے ان کی عبادت گاہوں میں جا کر اور شمع روشن کر کے ان سے اظہارٍ یکجہتی کرنے کی ہمت دکھائی ؟ چلیں ان کی عبادت گاہوں میں جانا یا ان جیسا لباس پہن لینا آپ کے ایمان کو گوارا نہیں تھا تو کم از کم اس دن اسمبلی میں صلیب سامنے رکھ کر چند ہمدردی کے کلمات بولے گئے ؟

ہزارہ اور پارہ چنار میں شیعہ برادری کی لاشوں کے انبار لگا دئیے گئے۔ کیا کبھی کوئی لیڈر کالا لباس پہن کر یا علم اٹھا کر وہاں کی یا کہیں کی بھی اما م بارگاہ میں جا کر دو لفظ ہمدردی کے بول پایا ؟ ایک بار ہزارہ کے مظلوم شدید سردی میں تین دن تک لاشیں سڑکوں پر رکھ کراحتجاج کرتے رہے تو تب کہیں جا کر وزیر آعظم گیلانی صاحب شاہی جاہ و جلال کے ساتھ وہاں پہنچے –شاہ کے وفاداروں میں سے ایک نے مرنے والوں کے عزیزوں کو ٹوک کر بولا کہ خبر دار آپ وزیر آعظم سے یوں بالواسطہ مخاطب نہیں ہو سکتے۔ ایک عامی کو بولنا پڑا کہ کیا یہ وائسرائے ہے ؟

خراب موسم کی آمد پر مجبور ہو کر اُڑ جانے والے پرندوں کی طرح ہندو اس ملک سے جاتے رہے۔ کیا کبھی کوئی ان کی ڈھارس بندھانے مندر میں جا کر دو بھجن سننے اور دو میٹھے بول سنانے کی جسارت کر سکا ؟ امن پسند اور بے ضرر پارسی اس ملک سے ناپید ہو گئے، کیا کبھی کوئی ان چھوڑ جانے والوں سے معافی مانگ سکا ؟ کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش تک بھی کی کہ وہ کیوں چلے گئے۔ نہ شکوہ نہ شکایت -ایسی خاموش ہجرت کھوکھلے سماج کے منہ پر تمانچہ نہیں ؟

اسی ہٹ دھرمی میں آدھا ملک اور دو دہائیاں گنوا کر دستور حاصل کرنے والوں اور پھر سے دستور کو بار بار دھتکارنے والوں کے ہاں اقلیتیوں کا رونا وقت کا ضیاع ہے- ہم شہباز بھٹی کو مار تو سکتے ہیں لیکن اس ملک کے کسی شہباز بھٹی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنی کسی خوشی یا غم کی گھڑی میں اسمبلی میں کھڑے ہو کر بائیبل کے دو بول سنا سکے- ہم منت کر کے مودی کو تو ملک میں بلا سکتے ہیں اور اس کے دھتکارنے کے باوجود بار بار فون تو ملا سکتے ہیں لیکن اپنے ملک کے کسی ہندو کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے کسی دکھ سکھ کے موقع پر اسمبلی میں اپنا کوئی حوالہ دے سکے۔

ہم محمود اور ایاز کو تو ایک صف میں کھڑا کر نہیں سکے تو ہم کسی مسیح یا کمار کو برابری کا درجہ کیا دیں گے۔ ہم مسجدوں کا بٹوارہ کرنے والے کلیساؤں اور مندروں کو عزت کیا دیں گے۔ ہم دکھ کی گھڑی میں محظ اظہارٍ یکجہتی کے لیے کالا علم اٹھا نہیں سکتے ہم صلیب کو احترام کیا دیں گے۔ ہم ایک دوسرے کی احادیث کی کتابوں کو تو چھوتے تک نہیں گیتا اور بائیبل کو کیا کھولیں گے۔ عظیم وزیر اعظم جیسنڈا کی طرح ، جنہوں نے اقلیتوں اور دوسرے مذاہب کو عزت دینی ہو وہ اپنی سیاست، قوم اور ملک تو کیا پوری دنیا میں پھیلی اپنی مذہبی برادری کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ دوسرے مذہب کا روایتی لباس پہن کر اس عورت نے ہر لباس کو عزت بخش دی۔ کٹر مذہبی حلیے والے باریش بزرگ کو گلے لگا تے اس کو یہ خوف یا احساس بالکل نہیں ہوا کہ یہ دہشت گرد ہے بلکہ یہ پیغام تھا ساری دنیا کے لیے کہ اس حلیے کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔

یورپ بالخصوص فرانس اور امریکہ ایک طرف ہیں جہاں پردے اور حجاب کے خلاف ایک ماحول بن رہا ہے۔ دوسری طرف جیسنڈا ہے جس نے سر پر دوپٹہ لے کر یہ پیغام دیا ہے کہ خوف اپنی سوچ میں ہوتا ہے کسی کے طرزٍ رہن سہن میں نہیں۔ اپنی اسمبلی میں قران کی تلاوت کروا کر جہاں ایک طرف مسلمانوں سے ہمدردی کا ثبوت دیا وہیں اس نے اپنی برادری کو یہ سبق دیا کہ ایسا کرنے سے ان کے مذہب کی صلیب اور بائیبل کا قد کم نہیں ہو جاے گا۔ جہاں اس دل دہلا دینے والے حادثے کے بعد دوریاں بڑھنے کا اندیشہ تھا وہاں جیسنڈا نے اپنے طرزٍ عمل سے سب کو پہلے سے زیادہ قریب کر دیا۔

دنیا میں نفرتوں کا رحجان تیزی سے پھیل رہا ہے- اس کے تدارک کے لیے جیسنڈا نے جو دو دن میں کر دکھایا اس کا عشر عشیر بھی بڑے بڑے لیڈران، دانشور اور سورما سالوں میں بھی نہ کر پائے- بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک نئی مثال قائم کی گئی -اس طرزٍ عمل سے ایک ایسا راستہ دکھایا گیا ہے جو اس انتہا پسندی اور نفرتوں کے خلاف بہترین آپشن ہے۔ یہ رویہ اگر ہر لیڈر کی طرف سے اپنایا جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے کمال ہو جائے۔

لیکن ہر لیڈر ایسا کرنے کا نہ ظرف رکھتا ہے نہ ہمت۔ کیوں کہ بڑی محنت اور ریاضت سے یہ تفریق اور نفرت کا بازار سجایا گیا ہے۔ ہر طرف ہٹلر اور چرچل ہیں، ٹرمپ اور مودی ہیں۔ افسوس ہم روئے زمین پر بسنے والوں کے پاس اس وقت صرف ایک جیسنڈا ہے۔ خدا اسے سلامت رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).