کہیں ہم بھی نیوزی لینڈ کی مساجد کے حملہ آور تو نہیں؟


اپنے وطن، مذہب، نسل یا ذات برادری سے محبت ایک فطری عمل ہے۔ اس محبت یا تعلق کے متعدد نمونے ہمیں جانوروں اور پرندوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاً اگر ایک کوّا مر جائے تو ہزاروں کوّے نہ صرف جمع ہو جاتے ہیں بلکہ ماتم یا شاید احتجاج کے طور پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن یہی ماتم یا احتجاج کسی دوسرے پرندے کے مرنے پر دیکھنے میں نہیں آتا۔ شاید کوّے بھی خود کو کسی ایک کوّے کی اولاد سمجھتے ہوئے احتجاج کو صرف اپنی نسل تک محدود رکھتے ہیں۔

گویا احتجاج کی بنیاد یہ نہیں کہ ایک جان گئی ہے بلکہ ماتم اور احتجاج اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ مرنے والا کوّا تھا یا نہیں؟ انسانوں میں وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ گھمبیر ہوتا چلا گیا اور ایک آدم کی اولاد کے دعوے داروں نے نہ صرف رنگ، نسل، مذہب اور ذات برادری کے دائرے پہن لئے بلکہ خود سے مختلف رنگ، نسل، مذہب اور ذات برادری کے ساتھ زیادتی یا ظلم کے حوالے سے ہلکی ہلکی خوشی محسوس کرنے کو بھی اپنے جملہ متعلقات سے محبت اور وفاداری کی علامت سمجھا جانے لگا۔ جو کہ انسانی پستی کی علامت ہے وہ آج بھی کہیں کہیں فخر کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

انسانی تاریخ ایسے لوگوں کی جدوجہد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے رنگ، نسل، مذہب اور علاقے کی بنیاد پر کیے جانے والے امتیاز کے خلاف لڑنے میں اپنی پوری پوری زندگیاں صرف کر دیں۔ مذکورہ بنیادوں پر نجانے کتنی جنگیں لڑی گئیں اور چشمِ فلک نے نجانے کتنا خون دیکھا لیکن پھر انسانوں کو یہ بات سمجھ آنے لگی کہ رنگ، نسل، مذہب یا علاقہ کسی فضیلت یا احترام کی بنیاد نہیں ہو سکتا بلکہ انسان ہونا اور انسانیت کے لئے کھڑے ہونا افضل اور انسانیت کے لئے آسانیاں پیدا کرنے اور محنت کرنے والا قابلِ عزت ہے۔ یوں ایک طویل جدوجہد کے بعد رنگ، نسل، مذہب یا علاقائی بنیادوں پر غلام بنانے اور غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کا خاتمہ ہوا اور جدید اور خود مختار ریاستوں کے تصور نے جڑ پکڑی اور آج جدید میڈیا اور انٹرنیٹ کی بدولت پوری دنیا ایک ”گلوبل ولیج“ کہلاتی ہے۔

15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ میں ایک سفید فام سپرمیسی جیسی نسل پرستی میں مبتلا دہشت گرد نے مساجد میں عبادت گزاروں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے پوری دنیا کو سوگ میں مبتلا کر دیا۔ لگ بھگ 50 قیمتی جانیں اس دنیا سے چلی گئیں اور درجنوں خاندان اس زخم اور صدمے کے ساتھ ساری زندگی گزاریں گے۔ انسانیت داغدار ہوئی اور پورے گلوبل ولیج نے نہ صرف اس صدمے کو محسوس کیا بلکہ کھل کر اس غیر انسانی فعل کی مذمت کی اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

وطنِ عزیز سے بھی سوشل میڈیا پر ہم وطنوں نے ساری دنیا کے شانہ بشانہ بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اس اظہار میں حصہ لیاجو کہ قابلِ تحسین ہے۔ اکثریت نے دہشت گردی کی مذمت کی اور اسے انسانیت کے لئے ناسور قرار دیا۔ امن کو انسانی بقا کے لئے ناگزیر قرار دیا، ظلم اور زیادتی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کی ترغیب دی اور ثابت کیا کہ ظلم کسی طور قابلِ قبول نہیں کیونکہ ہم امن پسند ہیں اور امن کا ہی فروغ چاہتے ہیں۔

گذشتہ ماہ پلوامہ میں ایک دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تو مذکورہ امن پسندوں نے یا تو خاموشی کا دامن تھامے رکھا یا پھر تواس دہشت گردی کی توجیہات پر خوب روشنی ڈالی، گھنشام بھِیل کو اپنے ہی وطن میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اور اس کا جسدِخاکی احتجاجاً چوک میں پڑا رہا لیکن مذکورہ امن پسندوں نے لب کشائی کی زحمت گوارہ نہیں کی، پہلے متعدد اور اب دو احمدی ڈاکٹرز کا بہیمانہ قتل کر دیا گیا لیکن مذکورہ امن پسندوں بلکہ جابر حاکم کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے کے دعویداروں نے کمال خاموشی بنائے رکھی۔ گویا یہاں بھی کوے کا اصول ہی چلا کہ مرنے والا یا ظلم کا شکار ہونے والا کوّا ہے کہ نہیں؟

یہ چنیدہ قسم کی حق گوئی، یہ چنیدہ قسم کا آواز اٹھانا، یہ چنیدہ قسم کی خاموشی، یہ چنیدہ قسم کی چشم پوشی، یہ چنیدہ قسم کا ماتم یا یہ چنیدہ قسم کا احتجاج نہ صرف یہ کہ کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ یہ بذاتِ خود اخلاقی دہشت گردی ہی کے زمرے میں آئیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کر لیا جائے کہ آیا ہم نے دہشت گردی، ظلم یا زیادتی کے خلاف کوئی اصولی موقف اپنانا ہے یا کہ اپنے موقف کو ہی اصول سمجھنا ہے۔

اگر ہم کسی نہ کسی حد تک صرف اپنے ہم مذہب، ہم نسل اور برادری ہی کو انسان سمجھتے ہیں اور دیگر مذاہب، نسلوں اور برادریوں سے انہیں نہ صرف افضل مانتے ہیں بلکہ ان کی تکلیف، ان پر ہوئے ظلم، زیادتی یا دہشت گردی پر خاموش رہتے، توجیہات پیش کرتے یا ہلکی ہلکی راحت محسوس کرتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی حد تک اسی منفی رویے کا شکار ہیں جس کا شکار نیوزی لینڈ کی مساجد میں حملہ کرنے والا نسل پرست دہشت گرد ہوا۔

یاد رکھیں امن اور خوشحالی کوئی ساون کی بارش نہیں کہ ایک کھیت کو جل تھل کر دے اور ساتھ والا خشک پڑا رہے بلکہ امن اور خوشحالی وہ پھل ہیں جو صرف اور صرف اجتماعیت کے پیڑ پر لگتے ہیں۔ اگر ہم دل سے اس گلوبل گاؤں میں امن کے خواہاں ہیں تو پھر بلا تفریق و امتیاز ہر ظلم، زیادتی اور دہشت گردی کے خلاف آواز بننا ہو گا اور گاؤں کی دیگر گلیوں میں ہونے والے ظلم اور زیادتیوں پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنی خود کی گلی اور گھر میں ظلم اور زیادتی کا شکار ہونے والوں کے ساتھ پہلے کھڑا ہونا پڑے گا۔

سوشل میڈیا بہت ہی عمدہ شے ہے لیکن میڈیا سے پہلے ”سوشل“ کا لفظ بھی قابلِ غور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).