جاوید بھٹو نے پوری ایک نسل کو غیرت کے نئے معنی سکھائے


جب میں جاوید بھٹو سے ملا تو اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بھٹو کو قتل کیا جا چکا تھا۔ لاش غائب کرنے کے بعد تلاش کی جا چکی تھی۔ میبنہ قاتل کا ڈرائیور قتل کا اقرار کر چکا تھا۔ 25 سال بعد بھی اس قتل کی جزیات یاد کرتا ہوں تو کانپ سا جاتا ہوں۔

پاکستان میں زیادہ تر عورتوں کا قتل ان کے اپنے گھر والے ہی کرتے ہیں۔ باپ، بھائی، خاوند، کزن اور جسے اردو زبان میں چسکے لے کر لکھا جاتا ہے، آشنا۔

فوزیہ بھٹو کی دوستی پی پی پی کے ایک ایم پی اے سے تھی۔ اسی ایم پی اے کے خلاف دائر کی گئی مدعی کی درخواست کے مطابق رحیم بخش جمالی نے ڈاکٹر فوزیہ کو گولیاں مار کر ہلاک کیا، لاش ایک قالین میں لپیٹ کر گاڑی کی ڈگی میں ڈالی، اپنے ذاتی ڈرائیور کو ساتھ میں لیا اور لاش کہیں دبا دی۔

جب میری جاوید بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی تو ڈاکٹر فوزیہ کی لاش جل چکی تھی۔ مبینہ قاتل کا نام بھی سامنے آ چکا تھا، لیکن اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی تھی۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ سندھ کے پی پی پی کے ایم پی اے کی اوقات اتنی ہی ہوتی تھی جتنی آج کل ہے۔ اور عورت کی جان کی قیمت بھی تقریباً اتنی ہی تھی جتنی آج۔

’عورت آشنا کے ہاتھوں قتل‘ جیسی ہیڈ لائن پڑھ کر لوگ پہلا سوال عورت کے کردار پر اٹھاتے ہیں۔ یہ نہیں پوچھتے کہ آشنائی میں قتل کی اجازت کونسا مذہب یا قانون دیتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا بھی یہی رویہ تھا کہ ہمارے ایم پی اے نے اپنی محبوبہ کو مار دیا، یہ ان کا آپس کا معاملہ تھا۔ اب جب عدالت جمالی کو سزا سنائے گی تو پھر ہم بھی سوچیں گے کہ ان کا کیا کرنا ہے۔

شاید میری طرح سندھ کی حکومت بھی یہ نہیں جانتی تھی کہ جاوید بھٹو کس مٹی کا بنا ہے۔

پہلی ملاقات میں ہی اس نے جیبوں سے کاغذات کے پلندے نکالے اور انتہائی غیر جذباتی انداز میں، دھیمے لہجے میں اپنی بہن کا کیس پیش کرنے لگا۔ پھر بتانے لگا کہ اس نے کون سے اخبار کے کس رپورٹر سے رابطہ کیا ہے، عورتوں کے حقوق کی کس تنظیم سے بات چل رہی ہے۔

ان کا خیال تھا، اور صحیح تھا، کہ جب تک خبر اخباروں میں زندہ رہے گی اس کی بہن کو انصاف ملنے کا امکان رہے گا اور اس کے لیے وہ کسی سے بھی کسی وقت بھی بات کرنے کو تیار تھا، دلیل کے ساتھ، ثبوت کے ساتھ۔

پہلی ملاقات میں یہ بھی پتا چلا کہ پرانا سیاسی کارکن ہے۔ اپنی بہن کی طرح ڈاکٹر بننے چلا تھا لیکن دل نہ لگا تو بلغاریہ سے فلسفہ پڑھ کر آیا ہے اور اب سندھ یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھانے کا ارادہ ہے۔

لیکن اس پہلی ملاقات میں ذاتی باتیں بہت کم ہوئیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس، کورٹ کی پٹیشن، کس دن کب پریس ریلیز جاری کرنی ہے، اس پر بات کرتا رہا۔ میں اس کی باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیسا مرد ہے؟ اس کی غیرت کو کیا ہوا؟

اسے یہ بتانے میں کوئی عار تھا کہ اس کی بہن کی رحیم جمالی سے دوستی تھی نہ ہی اس کا رحیم جمالی یا اس کے خاندان سے انتقام لینے کا کوئی ارادہ تھا۔ وہ اپنی بہن کے قاتل سے بدلہ نہیں چاہتا تھا، اپنی بہن کے لیے انصاف چاہتا تھا۔ میں نے زندگی میں ایسا مرد پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

میں نیا نیا گاؤں سے کراچی آیا تھا اور آیا تو بتیاں دیکھنے کے شوق میں تھا لیکن شہری زندگی کے آداب ابھی سیکھنے تھے۔ گاؤں میں ہر پگڈنڈی، ہر منڈھیر سے واقف تھا۔ شہر میں آ کر ابھی یہ بھی پتا نہیں تھا کہ خاتون سے چلتے ہوئے ہاتھ ملانا ہے یا فلموں والا آداب بجا لانا ہے۔

اور اگرچہ ہمارا گاؤں امن پسند ارائیوں کا گاؤں تھا جو لڑائی جھگڑوں میں اس لیے نہیں پڑتے تھے کہ مقدمے بازی میں پیسے بھی خرچ ہوتے تھے اور فصلوں کا بھی نقصان ہوتا تھا۔ لیکن یہ نمانے کاشتکار بھی عورت کے مسئلے پر لڑنے مرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔

شہر آنے سے کچھ سال پہلے ہی برادری کی ایک لڑکی گاؤں کے حکیم صاحب کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی (سب سے زیادہ خوشی مجھے ہوئی کیونکہ مجھے روز یہ کہہ کر ڈانٹا جاتا تھا کہ تم پڑھتے نہیں ہو، وہ دیکھو حکیم صاحب کا بیٹا پورا دن چھت پر چڑھ کر کتابیں پڑھتا ہے)۔

پنچائیت ہوئی اور میں نے ایک بزرگ کو لڑکی کے باپ سے کہتے ہوئے سنا کہ تمھارے کتنے بیٹے ہیں۔ اس نے کہا آٹھ۔ بزرگ نے کہا تو یہاں پنچائیت میں کیسا منہ لے کر آئے ہو۔ ان آٹھ میں سے کوئی ایک لڑکے اور لڑکی دونوں کو مار کر پھانسی پر لٹک جائے گا تو تمھارے پاس پھر بھی سات بیٹے بچ جائیں گی اور عزت بھی۔ وہ آٹھوں بھائی کافی عرصے تک گاؤں کی گلیوں میں شرمندہ شرمندہ پھرتے رہے۔

اب میں کراچی میں تھا اور جاوید بھٹو کا اپنی بہن کے قاتل سے بدلہ لے کر پھانسی چڑھنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور اسے اس پر کوئی شرمندگی بھی نہیں تھی۔

میرا خیال ہے گاؤں سے آ کر شہر میں بسنے والوں کے ساتھ کچھ واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو انھیں پینڈو سے شہری بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ جاوید بھٹو کے ساتھ ان ابتدائی ملاقاتوں نے میرے اندر کے ٹیڑھے میڑھے چودھری کو ایک عام شہری میں بدل دیا۔

ایم پی اے رحیم جمالی جیل گیا لیکن قانونی پیچیدگیوں کے سہارے بچ نکلا۔ کچھ سال پہلے نواب شاہ کی مسجد میں اعتکاف پر بیٹھا تھا کہ اس کے دشمنوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا (ایک معصوم ڈاکٹر کا مبینہ قاتل اگر اعتکاف کے دوران مارا جائے تو کیا اس کے گناہ بخشے جائیں گے؟)۔

جاوید بھٹو نے واشنگٹن میں بسیرا کیا۔ فلسفے سے صوفی ازم کی طرف مائل ہوا۔ نشے کی لت میں پڑے غریب لوگوں کی مدد کرتا تھا۔ نشے سے پاگل ہوئے ایک ہمسائے کے ہاتھوں جاں بحق ہوا۔

اس کے جنازے پر اس کے دوست شیخ ایاز کا کلام گاتے تھے اور میں اس جاوید بھٹو کو یاد کرتا تھا جس نے پوری ایک نسل کو غیرت کے نئے معنی سکھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).