بحریہ ٹاؤن کیس، نیا گنڈاسہ اور مڈل کلاسی اخلاقی مغالطے


خبر ہے آج کے اخبارات میں کہ بحریہ ٹاؤن کیس کے فیصلے پر اوورسیز پاکستانی خوشی سے نہال ہو گئے۔ انہوں نے ججوں کو دعائیں دیں اور بحریہ کے مالک ملک ریاض کی قومی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ بحریہ ٹاؤن کی منہ زور مارکیٹنگ کے دام میں آ کر وہاں پیسہ لگانے اور راتوں رات سرمائے کو دگنا چوگنا کرنے کے خواہشمند اس کیس پر بہت پریشان تھے۔ انہیں اپنی سرمایہ کاری اس کیس کے سبب ڈوبتی نظر آ رہی تھی جو انصاف کی ”بولی بالا“ ہونے پر محفوظ ہو گئی۔

اس فیصلے کو سراہتی، ملک و قوم کی ترقی کے لئے بحریہ کے مالک کے جذبے اور تڑپ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی ان اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت وہی ہے جو بدعنوانی کے خلاف ہر دم لیپ ٹاپ سونتے میدان میں نظر آتے تھے۔ انہیں دیسی سیاست دان پسماندہ دکھتے۔ تاہم کسی دیسی سیاست دان سے ذاتی تعلق کا موقع ملتا تو اسے اعزاز بھی سمجھا جاتا۔ وہی سیاست دان جب چھٹیاں گزارنے یا کسی دورے پر یورپی دارالحکومتوں کو جاتا تو اس کی میزبانی کی جاتی اور ان محفلوں کی تصویریں ازراہ تفاخر سب کو دکھائی جاتیں۔ کبھی کبھی ان پوسٹوں کا مقصد پاکستان میں رہنے والے شریکوں کو ان کی اوقات بتلانا بھی ہوتا۔

جو اس اعزاز سے محروم رہتا یعنی جو کسی سکہ بند سیاست دان کے قریبی حلقے میں داخل نہ ہو پاتا وہ انقلابی بن جاتا۔ شناخت اور اہل اختیار کی مصاحبی کے لئے ان محروموں کی پیاس بجھانے کے لئے نئے فنکار میدان میں آ جاتے۔ ان میں جہاں نووارد سیاست دان تھے وہاں سابقہ چیف جسٹس جیسے کئی کاریگر بھی اسی گنگا میں اشنان کرنے کو تیار رہتے تھے بلکہ اب تک ”غُسلا“ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے انقلابی بننا ویسے آسان کر دیا تھا۔ جہاں کسی دیسی سیاست دان (جس سے ذاتی تعلق نہ بن سکا) یا اس کے اہل خانہ نظر آئیں، ان کا تعاقب کرو۔ گالیاں بکو، آوازے کسو اور ساتھ ساتھ ویڈیو بنانا مت بھولو۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دو اور پھر دیکھو رونق۔

پنجابی فلموں میں جاگیردار کو مقامی رابن ہڈ سلطان راہی مرحوم کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر فلم بین سیٹیاں مارتے تھے اور سینما ہال سر پر اٹھا لیتے تھے۔ عام طور پر ان فلم بینوں کا تعلق معاشرے کے کمزور طبقات سے ہوتا تھا۔ پردے پر سلطان راہی کے کردار میں ان کو اپنی ناآسودہ خواہشات متشکل ہوتی نظر آتی تھیں۔ غلبے کا احساس ایک نشے کی طرح ان پر طاری ہوتا تھا، ہونٹ سکڑتے تھے اور فتح کا نعرہ تیز سیٹیوں کی صورت میں سینما ہال کی فضا میں گونجتا تھا۔

سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کو لعن طعن کی ویڈیوز ڈالنے اور انہیں بنانے والے طاقت اور اختیار کے اسی خوش کن احساس سے گزرتے ہوں گے جو سلطان راہی کے ہاتھوں جاگیردار کی پٹائی دیکھ کر غریب فلم بینوں کو ہوتا ہو گا۔ سیاست دان کیونکہ آسان ہدف ہیں اس لئے کسی بھی انقلاب کی جدو جہد میں پہلی قربانی انہی کی ہوتی ہے۔ نئے گنڈاسے یعنی موبائل ویڈیو کا نشانہ بھی وہی بنتے ہیں۔ ملک سے باہر ہمارے انقلابیوں کو اور بھی سابقہ حکمران اور اعلی ریاستی اہلکار ملتے ہوں گے جو یہاں عدالتوں کو مطلوب ہیں لیکن ذاتی عافیت، ملکی مفاد، اور ”رب نیڑے کہ گھسن“ وغیرہ جیسے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر اور ایک متوازن تجزیے کے بعد صرف سیاست دانوں کو انقلابی ویڈیوز میں کاسٹ کرنے کا فیصلہ ہوتا ہو گا۔

یاد رکھیں اہل ہمت مشکل ترین کام اعلی مقاصد کے لئے ہی سر انجام دیتے ہیں۔ اسی لئے بلاد مغرب کے ٹھنڈے بازاروں اور سڑکوں پر نا اہل اور بدعنوان دیسی سیاست دانوں کا گرم تعاقب کر نے، ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے اور اس کارِ انقلاب کی ویڈیو بنانے جیسی کٹھن مشقوں کا مقصد بھی بد عنوانی کا جڑ سے خاتمہ تھا۔ ملک کے لئے دردمندی اور خدمت کے جذبے سے سرشار بیرون ملک پاکستانی جب یہ دیکھتے کہ کتنی مشکلوں سے وہ اپنے وطن کی خدمت کرنے کے لئے ہزار جتن کر کے وطن سے ہزاروں میل دور آئے۔

کسی نے پی سی یعنی فوٹو چینج کروایا، کسی نے ایجنٹ کو پیسے دیے، کوئی کسی لالچی گوری کو برسوں خون پسینے کی کمائی سے حصہ دیتا رہا اور اسے زوجہ کا قابل احترام درجہ بھی دیا تاکہ موا پاسپورٹ لے سکے، کسی نے بادل ناخواستہ یہاں کی بے محابا آزادی کو خود اگر اپنے وطن کی خدمت کے خیال سے برداشت بھی کیا تب بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے بچے بالخصوص بچیاں اس ناقص آزادی کا نشانہ نہ بنیں۔ بعض کم نصیبوں کو تو اولاد کی جدائی کا دکھ بھی سہنا پڑا لیکن انہوں نے دیار غیر میں اپنی تہذیب کا علم سرنگوں نہ ہونے دیا۔

کہیں ناسمجھ اولاد کو، جو اکثر بیٹیاں ہی ہوتیں، ان کی مرضی کے خلاف وطن عزیز میں کسی کزن سے بیاہا تو کہیں دل پر پتھر رکھ کر انہیں گاڑ دیا۔ کسی نے بھانجوں، بھتیجوں اور بھائیوں کو کاغذوں میں اولاد دکھایا اور رشتوں کی اس الٹ پھیر سے ان کو بھی اپنوں سے دور بلوا کر ملک کی خدمت پر لگا دیا۔ غور و فکر کا مقام ہے کہ ان دردمندوں نے اتنی کٹھنائیاں کیوں برداشت کیں؟ کس کے لئے؟ بلاشبہ اس مملکت خداداد کے لئے! اور پھر یہاں کے دیسی سیاست دان اس ملک کو جب لوٹتے تو ان اوورسیز پاکستانیوں کا دل خون کے آنسو کیوں نہ روتا۔

اوورسیز پاکستانیوں کی انہی عظیم قربانیوں کا نتیجہ اور آسمانی طاقتوں کی ہم پر خصوصی کرم نوازی کہ ہمیں بدعنوان اشرافیہ سے چھٹکارا مل گیا۔ ایسے میں گزشتہ روز عدالت عظمی کا فیصلہ ملک بھر میں بالعموم اور اوورسیز پاکستانیوں میں بالخصوص خوشی کی لہر دوڑا گیا۔ کیونکہ ان کی عظیم جدوجہد کا مقصد ہی ملک کی ترقی ہے اور بحریہ ٹاؤن کے سرخرو ہونے والے مالک بھی تعمیر و ترقی کا جیتا جاگتا استعارہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).