ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی کے خلاف فیصلہ: حکومتی عدم دلچسپی اور پھر احتجاج


ماڈل ٹاؤن کیس کی اس نئی جے آئی ٹی نے دو روز قبل کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف سے تفتیش کرتے ہوئے ان کا بیان ریکارڈ کیا تھا۔

پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت ایک بڑی ناکامی سے دوچار ہونا پڑا جس لاہور ہائی کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے ماڈل ٹاؤن سانحے کی نئے سرے سے تحقیقات کے لئے بنائی گئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس محمد قاسم خان نے جسٹس ملک شہباز احمد خان اور جسٹس عالیہ نیلم کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ عدالت نے نئی جے آئی ٹی کے قیام کے لئے بنائے گئے نوٹیفیکیشن کو معطل کر دیا اور پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا۔

ماڈل ٹاؤن کیس میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے خرم رفیق اور دوسرے پولیس افسران نے نئی جے آئی ٹی کے جواز کے خلاف پیٹیشن دائر کی تھی۔

سینئیر وکلا اعظم نذیر تارڑ اور برہان معظم ملک ان کی طرف سے پیش ہوئے اور دلائل دیے کہ ماڈل ٹاؤن کیس ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے دائر کیا گیا تھا اور اب ٹرائل کورٹ میں 135 میں سے 86 گواہان کے پیش ہونے کے بعد اختتامی مراحل میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک جوڈیشل انکوائری اور جے آئی ٹی نے پہلے ہی فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ فوجداری قانون اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت چالان جمع کیے جانے اور فرد جرم عائد کرنے کے بعد نئے سرے سے تفتیش کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ پنجاب حکومت نے ازخود سپریم کورٹ کو یہ بتایا تھا کہ اس نے اس کیس میں نئے سرے سے تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد تین جنوری 2019 کو حکومت نے قوانین کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے نئی جے آئی ٹی بنا ڈالی۔

سماعت کے دوران ایک اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں موجود رہے لیکن انہیں نے دلائل نہیں دیے اور یہ کہا کہ انہیں ابھی تک حکومت کی طرف سے سے کوئی ہدایات نہیں ملی ہیں۔

بینچ نے جمعے کی نماز سے قبل پیٹیشن کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں فیصلہ محفوظ کر لیا اور شام کو تقریباً سوا چھے بجے اس وقت فیصلہ سنا دیا جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور دوسرے سرکاری قانون دان عدالت میں یہ شکایت کرنے پہنچے کہ انہیں سنا نہیں گیا۔

احمد اویس نے دعوی کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کے دفتر کو عدالت کی جمعے کے دن کی کارروائی سے باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا یہ کہ بہت خلاف روایت بات ہے کہ حکومت کو سنے بغیر ایک فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔

عدالت عالیہ کے بینچ نے ان کی آواز بلند ہونے پر انہیں جھڑک دیا اور انہیں اپنا لہجہ درست کرنے کا کہا۔ اس پر احمد اویس نے جواب دیا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ عدالت انہیں سن لے۔

”عدالت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش مت کریں“ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اٹارنی جنرل کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا اور انہیں یاد دلایا کہ حکومت پنجاب کا ایک اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل تمام تر کارروائی کے دوران عدالت میں موجود رہا تھا۔ جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو کہا کہ اگر انہیں فیصلے پر کوئی تحفظات ہیں تو وہ قانونی راستہ اختیار کریں۔

بینچ نے اکثریتی فیصلے سے پیٹیشنوں کو قابل سماعت قرار دیا، جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا اور حکومت کو ایک نوٹس ایشو کر دیا۔ سماعت کی اگلی تاریخ بعد میں مقرر کی جائے گی۔

یاد رہے کہ دو دن قبل اس نئی جے آئی ٹی نے جو موٹروے پولیس کے آئی جی اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، نواز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں تفتیش کرتے ہوئے ان کے ماڈل ٹاؤن کے واقعے کے بارے میں رول پر بیان ریکارڈ کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ اور ن لیگ کی حکومت کے دیگر سابق وزرا گزشتہ دنوں میں اس جے آئی ٹی کے سامنے بیان دینے کے لئے پیش ہو چکے ہیں۔

سترہ جون 2014 کے دن کم از کم چودہ افراد اس واقعے میں اس وقت مار دیے گئے تھے اور سو کے قریب زخمی ہوئے تھے جب پولیس نے طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر انسداد تجاوزات کے آپریشن کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے احتجاج سے نمٹنے کی کوشش کی تھی۔
ماخذ: دی نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).