وزیراعظم جیسینڈا ! پلیز مسلمان ہوجاؤ نا آپ کا کیا جاتا ہے!


ہم اس مغالطے کا شکار ہوگئے ہیں کہ حملے کے بعد نیوزی لینڈ کے معاشرے یا وہاں کی حکومت کو اسلام میں کوئی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ ایسا ہمیں اس لیے لگتا ہے کہ ہم خود کم ہی کبھی کسی معاملے کو انسانی تناظر میں دیکھ پاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر حکومت اور سوسائٹی کو اسلام سے کوئی ہمدردی تھی تو پھر ریاست یا معاشرے کو اضافی نمبر کس بات کے دیے جائیں؟ اضافی نمبر تو ہیں ہی اس بات کے کہ اسلام میں یا مسلمانوں کے کسی بھی فرقے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہ ہونے کے باوجود وہ مسلم شہریوں کے انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوگئے۔

اپنے رویے سے انہوں نے ثابت ہی یہ کیا ہے کہ

• ایک شہری سے مختلف سوچنا کسی بھی دوسرے شہری کا جرم نہیں ہوتا۔ اور یہ کہ تعداد میں کم ہونا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
• جو ہم سے مختلف سوچتا ہے اسے جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہمیں ہے۔
• اقلیت اوراکثریت کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہوتی ہے تو صرف شہریت ہوتی ہے۔
• ریاست کی نظر میں کوئی بھی فرد مسلمان، مسیحی، ہندو یا بدھسٹ نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے تو صرف شہری ہوتا ہے۔
• ریاست یہ نہیں جانتی کہ شہری کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے کوئی رنگ ہوتا ہے کوئی جنس اور صنف ہوتی ہے یاپھر نظریات وافکار ہوتے ہیں۔ ہوتے ہیں تو صرف حقوق ہوتے ہیں۔

یکجہتی کے اظہار سے وہ بتانا کیا چاہتے تھے؟

• حکومت نے جمعے کے روز ریڈیو اور ٹی وی پر اذان نشر کرنے کا اہتمام کیا۔ نماز جمعہ کے اجتماع کے لیے کھلے میدان میں اذانیں دلوائی گئیں اور غیرمسلم شہریوں نے احترام کے ساتھ کھڑے ہوکر خاموشی سے اذان سنی۔ حکومت اور معاشرے کو اذان میں دلچسپی نہیں تھی۔ یہ بتانے میں دلچسپی تھی کہ ہم اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔

• جمعے کے روز ہی خواتین نے عبایا پہن کر اور دوپٹے اوڑھ کر متاثرہ شہریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہیں دلچسپی عبایا اور دوپٹے میں نہیں تھی۔ دلچسپی اس اعتراف میں تھی کہ بود وباش کسی بھی شہری کا ذاتی اختیارہوتا ہے۔ عبایا پہننا ہے یا سکرٹ، ساڑھی پہننی ہے یا جینز، سر ڈھانپنا ہے یا ننگا رکھنا ہے اس فیصلے کا اختیار صرف اور صرف فرد کے پاس ہوتاہے۔ اس اختیار میں مداخلت کا حق کسی دوسرے شہری کو تو کیا ریاست کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی کسی سے یہ اختیار چھینے گا تو ہم مزاحمت کریں گے۔

• غیر مسلم شہریوں کی ٹولیاں عین نماز کے اوقات میں مختلف مساجد میں گئیں اور نمازیوں کے پیچھے صف بند کھڑی ہوگئیں۔ انہیں مسجدوں میں دلچسپی تھی اور نہ ہی تلاوت و نماز میں۔ دلچسپی یہ اطمینان دلانے میں تھی کہ ظالم ہمارا ہم عقیدہ کیوں نہ ہو ہم اس ظالم کا نام ونشان تک مٹادیں گے۔ مظلوم کا عقیدہ ہم سے مختلف کیوں نہ ہو ہم اس کے مذہبی حق تک کے لیے ناقابلِ تسخیر دیوار کی طرح کھڑے ہوجائیں گے۔

ہمارا رویہ دیکھ لیں کہ اس پورے منظرنامے میں ہم نے کہا؟

• ہم نے کہا، اسلام کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ اسے کوئی دباتا ہے تو یہ ابھرنے لگتا ہے۔ یعنی؟ یعنی کہ یکجہتی اور دلجوئی کے جتنے مظاہر سامنے آئے ہیں ان کا کریڈٹ خود اسلام کو جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ کا معاشرہ اور ریاست تو بس ایک ذریعہ ہے جسے خداوند کریم نے دین کی سربلندی کے لیے کام پر لگادیا ہے۔

• ہم نے کہا، جو کچھ نیوزی لینڈ حکومت یا وہاں کے معاشرے نے کیا وہ سب تو دراصل وہی کچھ ہے جو اسلام نے بتایا ہے۔ مطلب؟ مطلب کہ کریڈٹ یہاں بھی اسلام ہی کا ہے، ورنہ دنیا کو کیا پتہ کہ انسانیت کیا ہوتی ہے۔ مسیحی، یہودی، ہندو، ایگناسٹک، فیمنسٹ، لبرل یا سوشلسٹ اول تو باکردار ہوہی نہیں سکتے۔ اگر ہوجائیں تو جانے انجانے میں وہ دراصل اسلامی تعلیمات پر ہی عمل کررہے ہوتے ہیں۔

• ہم نے وزیر اعظم جیسنڈا سے کہا، آپ نے وہی کیا جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ اب اگر آپ اسلام بھی قبول کرلیں تو یہ سونے پہ سہاگہ ہوجائے گا۔ مقصد؟ مقصد یہ کہ آپ ایک اچھی انسان تو ہیں مگر ایک کسر رہ گئی ہے کہ آپ مسلمان نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت آپ ہم سے دوچار قدم کچھ پیچھے رہ گئی ہیں۔ آپ کا رویہ بتاتا ہے کہ آپ ہیں تو پکی مسلمان، بس یہ ہے کہ کلمے سے آپ محروم ہیں۔ اگر یہ آپ پڑھ لیں تو آپ اتنی ہی معتبر ہوسکتی ہیں جتنے کہ اس وقت ہم ہیں۔ آپ کو اس وقت ہماری دنیا کی فکر ہے، یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمیں آپ کی آخرت کی فکر ہے!

جو غیرمسلم خواتین کل مختلف اجتماعات میں موجود تھیں ان میں سے کوئی بھی خاتون کسی مذہبی اجتماع میں شرکت کی غرض سے نہیں نکلی تھی۔ ان میں سے کسی کے آنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانکاری لے کر اپنے مذہب پر نظر ثانی کرے۔ کوئی بھی اس خواہش کے ساتھ نہیں آئی تھی کہ یہ مسلمان اپنا مذہب چھوڑ کر ہمارا مذہب اختیار کرلیں۔ وہ اس بات پرفکرمند نہیں تھیں کہ ہم سے مختلف عقیدہ رکھنے والے ان شہریوں کا آخرت میں کیا بنے گا۔ وہ اس لالچ کے تحت بھی وہاں نہیں آئی تھیں کہ ہم اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے مسلمانوں کو متاثر کریں گے تاکہ وہ ہمارا مذہب قبول کرلیں۔

وہ یہ بات ثابت کرنے لیے بھی نہیں آئی تھیں کہ ہمارا جو یہ انسان دوست رویہ ہے اس کے پیچھے ہمارا کوئی مذہبی عقیدہ یا سیاسی نظریہ ہے۔ ان کے رویے میں کوئی ایسا اصراربھی نہیں تھا کہ چونکہ اب دنیا نے ہماری انسان دوستی کا اعتراف کرلیا ہے چنانچہ اب تسلیم کرلو کہ برتر مذہب ہمارا ہی ہے۔ وہ خواتین دنیا و آخرت کی کسی بھی لالچ کے بغیر اس بات پر فکرمند تھیں کہ ایک انسان نے خود کو برحق و برتر سمجھ کر دوسرے انسانوں سے جینے کا حق کیوں چھین لیا۔ مگر یہ دیکھیے کہ ہم نے کیا کیا؟

ہم نے اس پورے سانحے کے پیچھے چھپی ہوئی منشائے خداوندی ڈھونڈ نکالی۔ بتایا گیا کہ اس سانحے میں حکمت ہی یہ تھی کہ کافر ہمارے قریب آئیں اور ہم موقع ضائع کیے بغیر ان پر اسلام کی حقانیت پیش کردیں۔ ان سے مسکراکر ملیں اور پھر ان پر واضح کریں کہ ہم اس لیے مسکرارہے ہیں کہ ہمیں اسلام نے اس کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ جو لوگ یکجہتی کے اظہار کے لیے آتے رہے ہم ان پر حیرت کا اظہار کرتے رہے کہ کافر ہوکر بھی یہ اتنے باکردار کیسے ہوسکتے ہیں۔ ہم کڑھتے رہے کہ اتنے اچھے ان کے اخلاق ہیں انہیں تو مسلمان ہونا چاہیے تھا۔ جو خواتین یکجہتی کے اظہار کے لیے بغیر عبایا کے گئیں انہیں مسلم خواتین نے دوپٹے اوڑھائے اور ساتھ ہی ساتھ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کو بتایا کہ حیا بہت بڑی نعمت ہے (فکر کی بات ہے کہ اس سے آپ لوگ محروم ہیں ) ۔ ایسا کرکے ہم کیا تاثر دیتے ہیں، احساس برتری کا مارا ہوا ذہن اس کا ادراک کیونکر کرپائے گا۔

ایک وڈیو اگر آپ تک نہیں پہنچی توضرور کہیں سے ڈھونڈ کر دیکھیے گا۔ ایک فکرمند نوجوان وزیر اعظم جیسینڈا کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی ایک دیرینہ خواہش کے اظہار کے لیے تمہید باندھ رہا ہے۔ وزیراعظم بہت انہماک کے ساتھ ٹکٹکی باندھ کر اس کی بات سن رہی ہیں۔ انہیں جستجو ہے کہ کرب اور پریشانی کے اس ماحول میں یہ دکھی شخص کس خواہش کا اظہار کرنے والا ہے۔ بلکہ وہ ایک طرح سے بے تاب ہیں کہ یہ بات مختصر کرکے جلد اپنی خواہش ظاہر کرے تاکہ میں اس کی تکمیل کرکے اس کے ناقابل بیان دردکا کچھ نہ کچھ درماں کرسکوں۔ درد بھری تمہید سے گزرتے ہوئے جوان نے جیسے ہی تان یہاں توڑی کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مسلمان ہوجائیں، بے ساختہ وزیر اعظم جیسنڈا کی ہنسی نکل گئی اور فورا ہنسی پر قابو پالیا۔

ہمیں وزیر اعظم جیسینڈا کے انہماک اور بے ساختہ ہنسی کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ اگر تجزیہ نہیں کرسکتے توپھر میرے ساتھ مل کر ایک خبر پر خوش تو ہوسکتے ہیں۔ ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی بارہ سالہ رینا اور چودہ سالہ روینا نے پوری ”رضامندی“ کے ساتھ درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف پہنچ کر اسلام قبول کرلیا ہے۔ نابالغ بچیوں کو جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لیے درگاہ کے سجادہ نشین نے ان بچیوں کا نکاح اپنے حلقہ ارادت میں موجود دوصالح جوانوں سے کروادیا ہے۔ جوانوں کو سلام ہے کہ انہوں نے یہ رشتہ قبول کرلیا ورنہ ان بچیوں کا کیا ہوتا۔ اس اہتمام پر بچیوں کی ماں کو خوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ بلاوجہ صدمے سے دوچار ہوگئیں۔ صدمے کی تاب نہ لاکر کل وہ جان سے گزرگئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).