جنگ اور جمہوریت


چند دن پہلے کی بات ہے شانتی دیوی نے دوردرشن سے پوچھا تھا ”کیا پا کستان میں بھی جنگی جنون ہے“ مجھے اس کی بات بالکل پسند نہ آئی بلکہ کچھ غصہ بھی آیا۔ میں سوچتا رہا کیا جواب دوں اور ایک شعر اس کی نذر کیا

یہ جو زندگی کی کتاب ہے، یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں ایک حسین سا خواب ہے، کہیں جان لیوا عذاب ہے

بس یہ ہے آج کی زندگی۔ پاکستان حالت جنگ میں تو نہیں مگر جنگ لڑنے کے لئے تیار ضرور ہے۔ ویسے تو اسلامی تاریخ جنگ و جدل سے مبرا نہیں میرے ہاں جہادِ نفس بھی جنگ ہی ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں تو نہیں مگر مسلمانوں کی حالیہ تاریخ میں ایک انوکھا اور عجیب سا فیصلہ سامنے آیا۔ دنیا میں زیادہ آبادی رکھنے والے دو ملک جو جمہوریت کا راگ بھی خوب الاپتے ہیں، دونوں بظاہر حالت جنگ میں ہیں ان میں پاکستان کئی سالوں سے دہشت گردی کی جنگ میں اپنے کئی ہزار لوگوں کی قربانی دے چکا ہے۔ اس کے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو جنگ نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے کیونکہ جنگ سے جمہوریت بھی قتل ہو جاتی ہے۔

بھارت اور پاکستان میں جمہوریت کا بہت ہی رولا ہے۔ اس وقت جس جماعت کا بھارتی سرکار پر قبضہ ہے وہ ہندو دھرم کی نمائندہ جماعت ہے۔ کئی سال پہلے بابری مسجد کو ڈھانے والے لوگ اس ہی جماعت کے بتائے جاتے ہیں۔ اب یہ مقدمہ بھارت کی سپریم کورٹ میں ہے اور اس نے بھی فیصلہ کرنے کے بجائے ثالثی کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس عدالتی فیصلہ میں بھی بھارتی جمہوریت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ اب جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے وہ جمہوریت کے دعوے داروں کا کون سا بہروپ ہے؟

مقبوضہ کشمیر کے لوگ امن کے ساتھ خود مختاری چاہتے ہیں اور بھارت کو ایسا منظور نہیں۔ پاکستان اس لئے فریق ہے کہ اس کو کشمیر کی صورتحال پر تشویش ہے اور اسی وجہ سے بھارتی وزیراعظم نے کھلے عام جنگ کی دھمکی دی اور اس کا اظہار بھی کیا۔ پاکستان نے دفاع میں اپنی افواج کو تیار تو کیا ہے مگر اس کے حکمران جنگ کو مسائل کا حل نہیں خیال کرتے۔ اس سارے معاملہ میں جمہوریت دونوں ملکوں میں خوفزدہ ہے کہ کب جنگ میں قتل ہوجائے۔

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور وہ اپنی ایٹمی طاقت کو حالت امن میں دیگر ذرائع کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہمارے امریکی اور یورپی دوست اور مہربان ہماری ایٹمی قوت سے خوش نہیں ہیں، ہماری ہر وقت نگرانی کی جاتی ہے اور پاکستان عالمی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرتا رہا ہے۔ مگر اپنی بقا اور آزادی کے لئے یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ حملہ اور جارحیت کی صورت میں وہ محدود پیمانے پر اپنی اس قوت کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے اور بھارت کو اندازہ ہے کہ پاکستان اپنی آزادی کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بہت سنجیدگی سے ایٹمی خطرات سے آگاہ کیا۔ پاکستان کے عوام کو مکمل اندازہ ہے ایٹمی جنگ کا نقصان یک طرفہ نہیں ہوگا۔ بھارت کے وزیراعظم المعروف چوکیدار مودی جو آج کل اپنے انتخابات کی وجہ سے مصروف نظر آتے ہیں وہ پاک بھارت جنگی کیفیت کو اپنے انتخابات میں استعمال بھی کر رہے ہیں۔ ادھر پاکستان اندرون ملک ایک سیاسی اور سماجی جنگ میں مصروف ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے وقت برطانیہ کے وزیراعظم چرچل، جو ایک زمانہ میں تقسیم ہند سے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقہ میں متعین بھی رہے، سے حالتِ جنگ کی کیفیت کے دوران سوال پوچھا گیا کہ جنگ میں برطانیہ محفوظ ہے؟ تو وزیراعظم چرچل نے جواب دیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو ہم جنگ جیت رہے ہیں۔ ادھر پاکستان میں کرپشن کے خلاف اندرون ملک جنگ جاری ہے، نیب ایک خودمختار احتسابی ادارہ ہے اور کرپشن کے خلاف اپنی سی کوشش کر رہا ہے اور اس کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو مگر ہماری سیاسی اشرافیہ جن پر کرپشن کے الزامات ہی نہیں ثبوت بھی نظر آ رہے ہیں، پر ہاتھ ڈالنا مشکل نظر آ رہا ہے۔

اور ثبوت بھی ایسے اور کردار بھی ایسا کہ فوری فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو مکمل آزاد ی ہے مگر قانونی موشگافیوں کی وجہ سے اشرافیہ عدالتوں سے سہولت حاصل کرتی نظر آتی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر اور اشرافیہ بھاری وکیلوں کی مدد سے انصاف میں تاخیر کروا سکتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ چیف جسٹس نے گواہی کے معاملہ پر قانون اور اصول واضح کردیا ہے اب جھوٹی گواہی اور جعلی گواہ قابل گرفت ہو گا اور انصاف فوری ممکن ہو سکے گا۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم جن کو نیب عدالت نے سزا سنادی تھی، وہ مسلسل اپنے لیے مراعات چاہتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں جب اصول اور قانون کو نظر انداز کیا جائے گا تو اس کا اثر ملک کے جمہوری نظریہ پر لازمی ہوگا اور اب بھی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما عوامی معاملات میں غیرجمہوری رویہ دکھاتے ہیں۔ اس وقت حزب اختلاف نے اسمبلی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی جمہوریت کے لئے بہت خطرناک ہے۔ حزب اختلاف کے لیڈر شہباز شریف کو اصولی اور قانونی طور پر اپنا دامن صاف کرنے کے بعد اسمبلی میں اپنی حیثیت منوا نا چاہیے تھی مگر ان کا جمہوریت کا نعرہ فقط دعویٰ ہے حقیقت نہیں۔

ادھر ملک میں تحریک انصاف کی سرکار نیک نامی نہیں کما رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سادگی کے ذریعے حکمرانی کی نوید دی تھی مگر ہماری نوکر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کو سادگی بالکل پسند نہیں۔ نوکر شاہی کے اخراجات کا انت نہیں ہے سب سے زیادہ شاہانہ اخراجات میں پہلا نمبر اعلیٰ نوکر شاہی کا ہی ہے۔ ان کے اخراجات میں پیٹرول اور گاڑیوں کا کوئی حساب نہیں۔ دوسرے نمبر پر پولیس کی اعلیٰ انتظامیہ ہے، ہر افسر کے پاس گاڑیوں کی بھرمار ہے اور ان کی حفاظت کے لئے ایک قافلہ علیحدہ چلتا ہے۔

اس طرح کے اخراجات تمام صوبوں میں ہیں۔ پنجاب پولیس اور نوکر شاہی وزیراعظم عمران خان کے سادگی کے بھاشن کو خاطر میں نہیں لاتی اور ان کے وزیراعلیٰ بھی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ پنجاب میں عمران خان کو انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ایسی ٹاسک فورس ضروری ہے جو عمران خان کے مقاصد کے لئے صوبے کے حکمرانوں پر نظر رکھے۔ عمران خان جمہوریت کو بچا سکتے ہیں مگر جمہوریت کا یقین نہیں دلا سکتے۔ آج بھی دنیا میں جمہوریت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).