یہ لوگ اپنے معلم کو مار کر خوش ہیں


خبر ہے کہ بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج میں خطیب نامی طالبعلم نے اپنے استاد اور کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد حمید (گولڈ میڈلسٹ) کو چھریوں کے وار سے قتل کردیا۔ ماجرا یوں ہے کہ کالج میں ویلکم پارٹی کے سلسلے میں تیاریاں جاری تھیں اور مذکورہ استاد اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ خطیب اور اس کے ساتھیوں کے بقول اس طرح کی تقریبات فحاشی کو فروغ دیتی ہیں اور غیر اسلامی ہیں۔ اسی بات پہ استاد شاگرد کا جھگڑا ہوا اور خطیب نے چھریوں کے وار سے پروفیسر صاحب کو قتل کردیا۔

اب یہاں جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی اور شدت آمیز رویہ ہم میں آ کیوں رہا ہے؟ کون سے ایسے عوامل ہیں جو عدم برداشت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کا پتا چلانا ہوگا کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے اور کہاں کس بات پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور آئے روز کالجوں اور یونیورسٹیوں کی حدود میں ایسے واقعات وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

وہ معاشرہ جہاں فکری اور علمی بحث کو فروغ دیا جانا چاہیے تھا اور جہاں اختلاف رائے کو معتبر سمجھا جانا چاہیے تھا، آج عدم برداشت کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔ رجعت پسندی اور اپنا نظریہ دوسروں پر تھوپنا معمول بن چکا ہے۔ اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی سمجھا جا رہا ہے اور بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ شاگرد اساتذہ کو قتل کر رہے ہیں۔ یہ اس تہذیب کے زوال کا نقطہِ عروج ہے۔ عارف امام کے بقول

سروں سے بارِ تمدّن اتار کر خوش ہیں

یہ لوگ اپنے معلم کو مار کر خوش ہیں

ایک وقت تھا کہ مسلمانوں میں علم، فلسفے، منطق، طبیعات وغیرہ پہ بحثیں ہوتی تھیں۔ دنیا بھر سے تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھانے اپنے سوال لے کر مسلمان دنیا میں آتے تھے اور اپنے سوالوں کا جواب لے کر واپس جاتے تھے۔ اختلاف رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پڑھانے والے بایزید بسطامی، امام غزالی، بو علی سینا، ابن الہیثم اور جابر بن حیان جیسے لوگ ہوتے تھے اور پڑھنے والے دنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھتے تھے مگر کہیں عدم برداشت اور رجعت پسندی کا نام و نشان تک نہ تھا مگر اب صورتحال یہ ہے شاگرد استاد کی رائے کا احترام تو دور کی بات، اس کو قتل کرنے پہ آگئے ہیں اور بنیاد اسلامی تعلیمات کو بنا رہے ہیں۔

کس قدر افسوسناک امر ہے کہ اس ساری قتل و غارت میں سب سے زیادہ نقصان اسلام کو پہنچ رہا ہے۔ دنیا اس رجعت پسندی اور عدم برداشت کو اسلام کی تعلیمات کہہ رہی ہے اور آدھی دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد مان بھی چکی ہے مگر ہم آج تک محض ”ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا“ کے کھوکھلے نعروں پہ اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ ہم آج بھی اس قتل کی ساری ذمہ داری خطیب کی ذات پر ہی ڈال رہے ہیں اور خود بری الذمہ ہو رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس استاد کا قاتل سارا معاشرہ ہے۔

ہم میں سے ہر ایک اسی درجے کا شدت پسند ہے جس کا خطیب ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ اس نے انتہائی قدم اٹھا دیا اور ہم کبھی نہ کبھی اٹھا لیں گے۔ کبھی یہ معاشرہ مشال خان کو گستاخی کا الزام لگا کر بربریت کا نشانہ بناتا ہے تو کبھی بہاولپور جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے اور شدید سنگین نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے تاوقتیکہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کے سدباب کے لیے وسیع پیمانے پہ اقدامات اٹھائے جائیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جائے اور اسلام کی اصل روح پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے اختلاف کو بحث کا حسن سمجھا جائے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے۔ جو معاشرے اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہاں مجموعی دانش زوال کا شکار ہوتی ہے اور ایسی قومیں فکری زبوں حالی کا سامنا کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میں پسپائی اور جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سو خدارا اپنی اناؤں کے عرش معلیٰ سے اتریے اور دوسروں کی رائے کا احترام کیجیے۔

اختلاف کیجیے اور ضرور کیجیے مگر دلیل اور عقل سے کیجیے۔ یاد رکھیے ہاتھ اور ہتھیار تب اٹھتے ہیں جب دلیل ختم ہو جاتی ہے۔ جو کام دلیل سے ہوسکتا ہے وہ دنیا کا کوئی ہتھیار نہیں کر سکتا۔ اور ایک گزارش یہ کہ خدارا اسلام کے دامن کو داغدار نہ کیجیے، ایسی بربریت کے ماننے والے کچھ بھی ہو سکتے ہیں، ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہو سکتے۔

جب تک ہم بطور معاشرہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے اور اپنی نوجوان نسل کو عدم تشدد اور برداشت کی تعلیم نہیں دیں گے، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لہذا اس سے پہلے کہ وقت ہاتھوں سے ریت کی طرح نکل جائے، ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا اور نوجوان نسل کو اعتدال پسندی کی ترغیب دینا ہوگی وگرنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).