اسے کہتے ہیں وزیراعظم


بحرالکاہل کے شفاف نیلگوں پانیوں میں سانس لیتے ہوئے وہ جزائر جو نیوزی لینڈ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں، ان دنوں دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس کا سبب وہ اندھا دھند قتل ہیں جس کا شکارکرائسٹ چرچ میں نماز ادا کرنے والے مسلمان ہوئے۔

نیوزی لینڈ سے کبھی بھی اس نوعیت کی سفاکانہ قتل و غارت گری کی خبریں نہیں آئی تھیں لیکن جب آئیں تو انھوں نے ساری دنیا کے لوگوں بہ طور خاص مسلمانوں کو دہشت زدہ کردیا۔ پاکستان پر یہ خبر بہ طور خاص اثر انداز ہوئی کیونکہ ملکی حالات سے گھبرا کر نقل مکانی کرنے والے پاکستانیوں نے دور دراز کی بستیوں میں پناہ لینے اور اپنا روزگارکمانے کو ترجیح دی ہے۔ النور مسجد میں جان، جاں آفریں کے سپرد کرنے والوں میں پاکستانی نوجوان اور بزرگ دونوں ہی شامل تھے۔

اس سانحے کے فوراً بعد نیوزی لینڈ کی 38 سالہ وزیراعظم جیسنڈا آرڈن مسجد النور کے متاثرین کے درمیان تھیں۔ انھوں نے سیاہ رنگ کے اسکارف سے اپنا سر ڈھانپ کر مسلمان خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکیا، وہ جان سے جانے والوں کے گھروں پرگئیں اور انھوں نے ایک ایک سے تعزیت کا اظہارکیا۔ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انھوں نے دُکھے ہوئے دلوں پر مرہم رکھنے کے لیے اپنی پارلیمنٹ میں جمعہ کے روز اذان اور تلاوت قرآن کا اعلان کیا۔ جمعہ کی نماز جب النور مسجد میں ہورہی تھی تو وہ لگ بھگ 5 ہزار شہریوں کے ساتھ مسجد کے سامنے بنے ہوئے پارک میں موجود تھیں اور سر جھکائے متاثرین کے سوگ میں شریک تھیں۔

وہ نیوزی لینڈ کی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی لیبر پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ 2017 میں انھوں نے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کے بعد وہ دنیا کی دوسری وزیراعظم ہیں جو اپنی مدت وزارت میں ماں بنیں۔

اس سانحے کے فوراً بعد ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ میں اس شخص کا نام لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایک دہشت گرد، جرائم پیشہ اور انتہا پسند ہے۔ اس نے یہ بھیانک جرم اس لیے کیا تاکہ اسے دنیا بھر میں شہرت مل سکے، اسی لیے میں اس کا نام نہیں لوں گی اور دوسروں سے بھی میں یہ کہوں گی کہ وہ اس شخص کا نام لینے کے بجائے ان کے نام لیں جن کی زندگیاں اس نے ختم کردیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ شہرت حاصل کرنے کا خواہشمند ہو لیکن ہم نیوزی لینڈ والے اسے کچھ نہیں دیں گے۔ ہم اس کا نام بھی اسے نہیں دیں گے۔

وزیراعظم جیسنڈا نے فیس بک اور دوسری کمپنیوں سے اپیل کی کہ وہ اس وڈیوکو بلاک کردیں جو اس جنونی نے قتل عام کی بنائی اور پھر فیس بک پر اپ لوڈ کردی۔ اس اپیل کا فوری ردعمل ہوا۔ وڈا فون این زیڈ، اسپارک اور دوسری کمپنیوں نے اس وحشیانہ قتل عام کی وڈیوکلپ کو پھیلنے سے روک دیا۔ فیس بک نے کہا کہ اس نے پہلے 24 گھنٹوں میں 12 لاکھ وڈیو کو روک دیا ہے۔ حملہ آورکا اصل مقصد اپنے آپ کو سفید فام بالادستی کے خواہشمند لوگوں کا ہیرو بناکر پیش کرنا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ اس نے حملہ شروع کرنے سے چند منٹ پہلے اپنا منشور عام کردیا تھا، اس منشور کا مقصد نفرت کو پھیلانا اور ترک وطن کرکے آنے والوں کے خلاف مہم چلانا تھا۔ سفید فام بالادستی کی بات کرنے والوں کو اس بات سے بھی خوف آتا ہے کہ ان کی عورتیں بچے پیدا کرنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتیں جس کی بناء پر ان کی شرح پیدائش کم ہورہی ہے جب کہ مسلمان اپنے خاندانوں کی افزائش کو اہم سمجھتے ہیں۔

ٹیلی ویژن چینلوں پر یہ بحث بھی چلی ہے کہ سفید فام عورتوں کا منصب اور ان کی تنخواہیں چونکہ اپنے مردوں سے زیادہ ہیں اس لیے وہ خاندان کو بڑھانے اور کئی بچے پیدا کرکے ان کی ذمے داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس نوعیت کے اختلافات خاندانوں کی شکست و ریخت کا بھی سبب بن رہے ہیں۔ یہ نعرے بھی انتہا پسند سفید فام مردوں میں بہت مقبول ہوئے ہیں کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو دوسروں (غیر سفید فام) کے بچوں کے ذریعے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

ان جذبات نے انتہا پسند سفید فام مردوں کے اندر عورت دشمنی کے جذبات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک سفید فام خاتون کا کہنا ہے کہ میں پہلے اسے نئی نازی لہر سمجھتی تھی لیکن اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ انتہا پسند سفید فام ہم عورتوں سے ووٹ کا حق بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ اس لیے سیاست ہی وہ میدان ہے جہاں سے عورتوں کو اگر نکال باہرکیا جائے تو وہ آہستہ آہستہ اپنے تمام حقوق سے محروم کی جاسکتی ہیں۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نیوزی لینڈ دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے پہلے یعنی 1895 میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا تھا۔ یہ اسی حق کا نتیجہ ہے کہ عورتوں نے یہاں بڑھ چڑھ کر سیاست میں حصہ لیا اور ان کا وزیراعظم بن جانا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے کے سبب وزیراعظم جیسنڈا ترکِ وطن کرکے آنے والوں کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے جرمنی میں آنے والے پناہ گزینوں کو جس طرح خوش آمدید کہا اور ان کو نئے سرے سے آباد کرنے میں دلچسپی لی، وہ بھی ایک مثال ہے۔ ان پناہ گزینوں میں بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان کے ساتھ انسانی ہمدردی کا اظہار بہت سے جرمن باشندوں کو پسند نہیں آیا اور ان کی سیاسی مقبولیت میں کمی ہوئی لیکن انجیلا مرکل نے اصولوں کی بنیاد پر اپنے موقف سے انحراف نہیں کیا۔

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا جو سانحہ پیش آیا اس پر وہاں کی وزیراعظم نے نہایت سخت رد عمل دیا اور ایک ہفتے کے اندر مہلک ہتھیاروں اور فوج میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں پر پابندی عائد کر دی۔ ان کے اس حکم کا اطلاق فوری طور پر ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری پر امن اور صلح کل آبادی میں کوئی دوسرا اس قسم کا خوفناک واقعہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہم نیم خودکار ہتھیاروں کی آزادانہ خرید وفروخت کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو اس نوعیت کے مہلک ہتھیار رکھتے ہیں، ہم ان ہتھیاروں کو ان سے خرید لیں گے اور اس کے لیے ہم 100 ملین نیوزی لینڈ ڈالر سے 200 ملین ڈالر تک کی رقم مختص کریں گے۔

یہ ایک اتنا اہم اور تیز رفتار فیصلہ ہے جس نے سب کو حیران کردیا ہے۔ بہ طور خاص امریکا والوں کو جو اس نوعیت کے سانحات سے آئے دن دوچار ہوتے ہیں۔ ان کے سیاست دان بھی صدر امریکا، کانگریس اور سینیٹ سے اپیل کرتے رہتے ہیں کہ ان مہلک ہتھیاروں پر پابندی لگائی جائے۔ گذشتہ 25 برسوں کے درمیان ایسی تمام اپیلوں کا امریکی صدور اور دائیں بازو کے سیاستدانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ان اسلحوں کی پیداوار اور ان کی خرید و فروخت اربوں ڈالر کی تجارت پر مشتمل ہے جس سے بڑے کاروباری افراد محروم نہیں ہونا چاہتے۔

یہ لوگ کانگریس اور سینیٹ میں مہلک ہتھیاروں کی تیاری اور خرید و فروخت پر کسی نوعیت کا قانون منظور نہیں ہونے دیتے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا یہ ہنگامی اعلان اور اس پر فوری عمل درآمد نے امریکی سیاست دانوں کو بہت متاثرکیا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی ممبر الیکزنڈریا نے امریکی سیاستدانوں کو شرم دلائی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہ کرسکے جب کہ 2012 ء کے ایک ایسے ہی وحشیانہ حملے میں اسکول کے 20 بچے اور 6 اساتذہ اپنی جان سے گئے تھے۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے سات دنوں کے اندر نہ صرف اپنے ملک میں مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ ایک دانشور اور مدبر کے طور پر ابھرکر دنیا کے سامنے آئی ہیں۔ پاکستان میں ان کی تقریروں اور بیانات کا پرجوش انداز میں خیر مقدم ہوا ہے۔ انھیں پاکستانی اخبارات اور سوشل میڈیا میں سراہا جارہا ہے۔ یہ ان کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ وہ مسیحی عورت جو شادی شدہ تھی، یہ تین بچوں کی ماں تھی، چند دنوں پہلے بندوق کی نوک پر اٹھائی گئی، مسلمان کی گئی اور ایک با اثر شخص سے نکاح پڑھوا لیا گیا، اس کے لیے ہمارا کون سا سیاستدان آواز اٹھائے گا اور وہ دو ہندو لڑکیاں جو چند دنوں پہلے اسی عذاب سے گزریں، انھیں کون انصاف دلائے گا۔ ریاست کب ان کی مدد کو آئے گی؟

یہ تو ایک ہفتے کے دوران کی بات ہے، ہماری اقلیتیں مسلسل اس عذاب سے گزرتی ہیں اور پھر ہم یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم سے زیادہ اقلیتوں کے حقوق کوئی ادا نہیں کرتا۔ کیا ہماری 2 % اقلیت ریاست کو اپنا محافظ سمجھتی ہے؟ اگر ”ریاست ماں جیسی ہوتی ہے“ کے اصول کو مان لیا جائے تو نیوزی لینڈ کی ریاست اور اس کی سربراہ وزیراعظم جیسنڈا نے اس اصول پر عمل کرکے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ یہ ہوتی ہے ریاست اور اسے کہتے ہیں وزیراعظم۔
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).