مارنا تھا یا ڈرانا مقصد تھا؟


کراچی میں ایک مرتبہ پھر سکون بے سکونی کا شکار ہوتے ہوتے بچ گیا۔ اگر مولانا تقی عثمانی دہشتگردوں کا نشانہ بن جاتے تو حالات کوئی بھی سنگین صورت اختیار کر سکتے تھے لیکن مولانا تقی عثمانی محفوظ رہے البتہ ان کا ایک گارڈ چلائی گئی گولیوں کے زد میں آگیا جبکہ دوسری گاڑی میں سوار 4 افراد کو نہایت زخمی حالت میں گاڑی سے نکال کر ہسپتال پہنچایا گیا جس میں سے دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے، باقی دو افراد کی حالت بھی بہت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

خبروں کے مطابق ممتاز عالم دین، شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ نیپا چورنگی فلائی اوور سے یونیورسٹی روڈ کی جانب جانے والی سڑک پر 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 مسلح دہشت گردوں نے گاڑی پر چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی معمول کے مطابق جامع مسجد بیت المکرم نماز جمعہ پڑھانے جا رہے تھے۔ اہلیہ، پوتا، پوتی بھی ان کے ہمراہ تھے۔

ایک اور اطلاع کے مطابق مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا ڈرائیور فائرنگ کے بعد ان کی گاڑی وہاں سے نکال لینے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس بات سے لاعلم رہا کہ گاڑی کا تعاقب جاری ہے۔ ان کی گاڑی کو ایک مرتبہ پھر نرسری اسٹاپ کے قریب گھیرنے کی کوشش کی گئی اور گاڑی پر فائر بھی کیے گئے لیکن یہاں بھی دہشتگردوں کو زبر دست ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ یہاں بھی مولانا اور ان کے گھر والے نہ صرف محفوظ رہے بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے کسی کو خراش تک نہیں آسکی۔

نیپا جیسے پر رونق علاقے میں مجرموں کی اس طرح دیدہ دلیری دکھا کر اور پھر مولانا کی گاڑی کا مسلسل تعاقب کرکے ان پر دوبارہ حملہ کرنے کے بعد فرار ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی نہیں۔ اس سارے عرصے میں ان کا نہ پکڑے جانا اور قانون کے ہاتھوں بچ رہنا ایک المیہ سے کم نہیں۔ کس کے علم میں یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ مولانا کا ڈرائیور نیپا سے گاڑی نکال لیجانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ بے شک دہشتگردوں کا فوراً گرفتار کرلینا آسان کام نہیں تھا لیکن جو گاڑی فائرنگ کی زد میں آچکی ہو اس کے پل پل کا احوال علم میں رکھنا تو بہر صورت ضروری تھا۔

فائرنگ کی زد میں آجانے والی گاڑی کے اندر کا احوال کچھ بھی ہو سکتا تھا لہٰذا اس پر مسلسل نظر رکھنے کی اشد ضرورت تھی جس میں غفلت عقل و فہم سے بالاتر ہے جبکہ اس گاڑی میں نہ صرف مولانا محترم تھے بلکہ ان کے ساتھ خاندان کے افراد بھی تھے۔ یہ غفلت کسی بھی بڑے صدمے کا باعث بن سکتی تھی لیکن اللہ نے کسی بڑے سانحے سے ان سب سواروں کو اپنی حفاظت میں رکھا۔

یہاں جو بات بہت ہی قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ کراچی میں ایک عرصہ دراز سے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دہشتگردی کا سہارا لے کر جتنے افراد کراچی میں مارے جا چکے ہیں وہ کسی بہت بڑی جنگ میں بھی نہیں مارے جاتے۔ پکڑے جانے والوں کی تعداد تو شاید لاکھوں میں ہے اور وہ افراد جن کو پکڑ کر بالکل ہی ”لاپتہ“ کر دیا جاتا ہے وہ بھی ان گنت ہیں۔ اگر بیس پچیس برسوں کی مسلسل ان کارروائیوں کے باوجود بھی اب تک کراچی اس قابل نہیں ہوسکا کہ یہاں کوئی بھی نمایاں اور غیر نمایاں فرد گریبان کی بٹن کھول کر شہر کے ہر گلی کوچے اور بازار میں آزادانہ گھوم پھر سکے تو پھر شہر کی حفاظت کا انتظام سنبھالنے والوں پر سوال اٹھایا جانا تو بنتا ہے۔

دنیا اس بات سے واقف ہے کہ اب تک ساری ابتری کا ملبہ کراچی کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سر پر ڈال دیا جاتا تھا۔ ملبہ گرائے جانے کا یہ سلسلہ گو کہ اب بھی جاری ہے لیکن اب عملاً اس پارٹی کا وجود ہی ختم کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس وقت کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی ہے جو نہ صرف وفاق میں بلکہ کے پی کے اور پنجاب میں مکمل اور بلوچستان میں اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان حالات کی تنہا ذمہ دار بہر لحاظ یا تو پی ٹی آئی ہے یا پھر عسکری ادارے جن کی ذمہ داری شہر میں امن و امان بحال رکھنا ہے۔

یہ ادارے قانونی طور پر با اختیار بنا دیے گئے ہیں اور ان کو جو بھی اختیار تفویض کیا گیا ہے وہ تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے کیا گیا ہے جس کی روشنی میں وہ ہرقسم کی کارروائی کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ ہر قسم کے قانونی اختیارات کے باوجود بھی اگر شہر کی صورت حال کسی بھی وقت سنگین ہو سکتی ہے تو پھر جواب طلب کیا جائے تو آخر کس سے کیا جائے۔

اس واقعے کے بعد اس کا کئی نقطہ نظر سے جائزہ لیا جارہا ہے جس میں اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کراچی کی سب سے بڑی پارٹی جس کی راہوں کو ہر جگہ سے مسدود کردیا گیا ہے وہ اپنے آپ کو دوبارہ سانس لینے کے قابل بنارہی ہو؟ گوکہ یہ بات قرین قیاس سہی لیکن اس کے لئے دہشتگردوں کا گرفتار کیا جانا بہت ضروری ہے۔ یہ کام مذہبی فرقہ واریت کا ساخسانہ بھی ہو سکتا ہے اور بھارت کی کارروائی بھی۔ یہ سارے پہلو اپنی جگہ لیکن اس قسم کی باتیں ساری قیاسات ہی قرار پائیں گی۔

ان ہی سارے نقطہ ہائے نظر میں میری اپنی سوچ کا بھی ایک زاویہ ہے جس کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے ”شارپ شوٹر“ یا سفاک قاتل جب کسی پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ان کا نشانہ عام طور پر چوکتا نہیں ہے اور وہ اپنے ہدف کو حاصل کیے بغیر کبھی نہیں لوٹتے۔ وہ حکیم سعید ہوں، صلاح الدین ہوں یا اور بہت ساری مشہور شخصیات، جس پر بھی جھپٹتے ہیں اس کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دیتے ہیں لیکن مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی گاڑی پر ایک مقام پر نہیں دو مقامات پر نشانہ بنانے کے باوجود وہ نہ صرف مولانا کو نشانے پر لینے میں ناکام رہے بلکہ گاڑی میں موجود کسی کو خراش تک نہ پہنچا سکے۔

کیا اس کو محض ایک اتفاق مان لیاجائے؟ میری سوچ کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا مقصود مولانا کو مارنا تو کیا ان کو کسی قسم کی ایذا تک پہنچانا نہیں تھا بلکہ ان کو سمجھانا (ڈرانا) تھا کہ ہم کہیں بھی، کسی وقت بھی اور کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ با الفاظ دیگر دھمکانا مقصد تھا۔ میرا قیاس اگر درست ہے تو پھر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کو معلوم بھی ہوگا کہ یہ اقدام کس بات سے روکنے کے لئے رہا ہوگا۔

یاد رہے کہ مولانا کئی بار اس بات کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ ان کو دھمکی آمیز کالیں وصول ہوتی رہی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مولانا سے مزید تفصیل حاصل کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ ان کو نامعلوم کالوں کی ذریعے کس بات سے روکنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ بات کی تحقیق یقیناً تفتیش میں مددگار ثابت ہوگی۔ امید ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پہلو کو ضرور اپنے پیش نظر رکھ کر اپنی کارروائی کو آگے بڑھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).