تبدیلی کیسے لائی جا سکتی ہے؟


کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم معاشرے کی تہذیب و ثقافت کی بنیاد رکھتی ہے اور اس کے خدوخال وضع کرتی ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں سے لے کر عصرِ حاضر تک کے مفکرین اور ماہرینِ تعلیم نے تعلیم کی مختلف جہتوں پہ قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ افلاطون، ارسطو، ڈیکارٹ، سپائنوزا، لیبنیز، لاک، برکلے، ہیوم، کانٹ، ہیگل، مارکس، رسل، جان ڈیوی، برگساں، فرائیڈ، ایڈلر، ژونگ، سکنر، واٹسن، ڈارون اور آئن سٹائن چند ایسی قد آور شخصیات ہیں جن کے نظریات نے فکری دھارے کا رخ متعین کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے معروضی حالات کے پیشِ نظر ایسے فکری مباحث چلائے اور ایسے نظریات پیش کیے جنہوں نے فکری روایت کو آگے بڑھایا اور انسانی فہم کو مزید وسعت دی۔

حقیقت کی ایک خاصیت ہے کہ یہ جامد نہیں ہوتی بلکہ ڈائنامک ہوتی ہے۔ اور یہی بات فلسفہ، نفسیات اور ادب سے جھلکتی نظر آتی ہے کہ علم کی دنیا میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ ہمیشہ نئے نظریے، نئے زاویے اور نئی سوچ کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی نظریہ بہتر متبادل کے طور پر سامنے آتا ہے تو وہ نظریہ قبول کر لیا جاتا ہے تاوقتیکہ کوئی اور بہتر نظریہ سامنے نہیں آ جاتا۔ اور یہی سائنسی اندازِ فکر ہے۔

سوچنے والے لوگ ہی دنیا کو آگے لے کے جاتے ہیں اور جہاں سوچ کا فقدان ہو یا سوچ پہ پہرے ہوں وہاں ترقی اور جدت کا تصور بھی محال ہے۔ پاکستان کے گوناگوں مسائل کی جڑ ہی سوچنے کی روایت کا فقدان ہے۔ آئینِ نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اڑنا ہمارے ہاں کی غالب روایت ہے۔ ہم کچھ حوالوں سے عجیب و غریب قسم کی نرگسیت کا شکار ہیں۔ لیکن جدید ترقی کے کسی بھی پیمانے سے پرکھا جائے تو نتیجہ وہی صفر۔

کوئی بھی واقعہ کوئی بھی حادثہ اچانک رونما نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے پیچھے غلط اقدامات کی طویل فہرست ہوتی ہے۔ ستر کی دھائی کے آخر میں ہم نے ایک ایسے راستے پہ چلنے کا انتخاب کیا جس کی منزل عدم روادری، شدت پسندی، فرقہ واریت اور لسانی اختلافات ٹھہری۔ ان پالیسیوں نے ایک ایسی شناخت کو بڑھاوا دیا جو کسی طور بھی اس دھرتی کی عمومی شناخت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جتنی عدم برداشت ہر سو پھیلی ہوئی ہے اس کی بنیاد وہی پالیسیاں ہیں۔

تعلیمی نصاب کو اس طریقے سے ’مینوور‘ کیا گیا کہ تنقیدی سوچ پروان ہی نہ چڑھنے دی گئی۔ ایک ایسا مہا بیانیہ تشکیل دیا گیا جس نے زندگی کے ہر شعبے کو متأثر کیا۔ اگر آج کہیں بھی کسی بھی وقت کسی کو بھی درندگی سے مار دیا جاتا ہے تو اس کے محرکات میں وہی سوچ کارفرما ہے۔ مشال خان کا قتل ہو یا پروفیسر خالد حمید کا، محرک ایک ہی ہے۔

جیفری چاسر کہتا ہے کہ اگر سونے کو ہی زنگ لگ جائے تو پھر لوہے کا کیا بنے گا۔ اس کی یہ بات ہم پہ سوا دھان صادق آتی ہے۔ ہمارا ٹیچر ہی تنگ نظر اور شدت پسند ہے اوروں سے کیا دوش۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر علاقے کے ٹیچرز کے خیالات جاننے کا موقع ملا اور معلوم ہوا کہ صحیح معنوں میں پڑھے لکھے اور کتاب دوست اساتذہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ وہی روایتی گھسا پٹا بیانیہ اور فرسودہ خیالات۔ ٹیچرز میں عدم برداشت باقی شدت پسند طبقات سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔

سکول ٹیچرز سے لے کر یونیورسٹی ٹیچرز تک ایک ہی برانڈ نظر آتا ہے۔ ایسے اساتذہ کی تعداد انتہائی تھوڑی ہے جو کتاب بینی کا شغف رکھتے ہوں اور معاصر فکری مباحث سے آگاہی رکھتے ہوں۔ یہ تو بھلا ہو میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا کا کہ ہر کوئی ’ماڑا موٹا‘ دانشور بنا بیٹھا ہے۔ اساتذہ کی ترجیحات میں ان کی اصل ذمہ داری کہیں بہت بعد میں آتی ہے۔ ایک ’رَیٹ ریس‘ لگی ہوئی ہے اور ہر کوئی سر پٹ بھاگے جا رہا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اساتذہ کے جن وظائف کا ذکر اپنے مضمون ’فنکشنز آو آ ٹیچر‘ میں کیا ہے ان کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔

ایک بات طے ہے کہ اگر ہم اسی ڈگر پہ چلتے رہے تو ہم مزید رسوا ہوں گے۔ سطحی سے بیانئے اور کاسمیٹک تبدیلیوں سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ اور نہ ہی کوئی ایسا الٰہ دین کا چراغ ہے کہ پلک جھپکتے ہی تبدیلی آ جائے گی۔ اگر ہم درست سمت کا انتخاب کر لیں جو کہ ہمارے بس میں ہے تو کم از کم دو عشروں تک ایک مثبت تبدیلی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہم کسی جزیرے کے باسی نہیں ہیں کہ جو چاہے کرتے رہیں گے بلکہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں

جسے گلوبل ویلیج کہنا بھی ایک کلیشے بن چکا ہے۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کے اپنے نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ اور آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ اساتذہ کو اپ ٹو ڈیٹ بنانا ہو گا۔ نہیں تو ہمارے ستارے ایسے ہی رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).