بلاول بھٹو کی سیاست


بلاول بھٹو کی سیاست کے تناظر میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی ساتھیوں کا نکتہ نظر یہ تھا کہ وہ اپنے والد آصف علی زرداری کی سیاست سے بالکل مختلف طرز کی سیاست کرکے کھوئی ہوئی پارٹی کی ساکھ کو بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کی بھی یہ ہی توقع تھی کہ وہ روایتی طرز کی سیاست کی بجائے ایک ایسی سیاست کو ترجیح دیں گے جو ان کو بھی مقبول لیڈ ر کے طور پر پیش کرے گی اور ملکی سطح کی سیاست میں وہ ایک نئی امید بھی پیدا کرسکیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی بحالی میں ایک نوجوان قیادت درکار تھی جو بلاول بھٹو کی صورت میں سامنے آئی تھی۔

بلاول بھٹو کے سامنے پانچ بڑے چیلنجز تھے یا ہیں۔ اول ان کی پہلی ترجیح پیپلز پارٹی کے مردہ جسم میں نئی روح کو پھونکنا اور جماعت کے حقیقی سیاسی کارکنوں میں موجود مایوسی اور لاتعلقی کو ختم کرکے ان کی فعالیت سمیت خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنا تھا۔ دوئم پیپلز پارٹی میں وہ مفاد پرست اور ایسے افراد جن کی وجہ شہرت بری ہے کہ مقابلے میں نظریاتی ساتھیوں کو سیاسی ذمہ داریاں دے کر پارٹی کے سیاسی تشخص کو بحال کرکے اس کی سیاسی ساکھ کو قائم کریں گے۔

سوئم پارٹی کے داخلی سطح میں ایسے افراد جو کرپٹ ہیں، بدعنوان ہیں یا ان پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں ان کا دفاع کرنے کی بجائے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ چہار م وہ اپنے والد کی سیاسی بالادستی کے اندر رہتے ہوئے فیصلہ سازی کے عمل کو خود کو ایک طاقت ور فریق کے طو رپر پیش کرکے پارٹی معاملات کو خود کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے۔ پنجم وہ پارٹی کی فعالیت کی مدد سے دوبارہ وفاقی جماعت یا سیاست کو بنیاد بنا کر اپنی جدوجہد کو تیز کریں گے اور اسی تاثر کو ختم کریں گے کے اب ان کا کردار محض سندھ کے دیہی شہروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

لیکن لگتا یہ ہے کہ بلاول بھٹو فی الحال ایک روایتی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں یا ان کو ان کی والد کی سیاسی حکمت عملیوں نے پابند سلاسل کرکے رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک عمومی تاثر یہ ہی ہے کہ اب بھی پارٹی میں فیصلہ سازی کی اصل طاقت یا سیاست کا ریموٹ کنٹرول آصف زرداری کے ہاتھ میں ہی ہے۔ بلاول بھٹو کا کردار محدود ہے اور ان کو فی الحال اپنے والد کے دائرہ کا رمیں رہتے ہوئے ہی سیاست کرنی ہے جو ان کو کمزور کررہا ہے۔ آصف زرداری کی اسٹیبلیشمنٹ سے سیاسی پینگیں اور مفاہمت کے کھیل بشمول بلوچستان حکومت کا خاتمہ، سینٹ انتخابات میں بھی بلاول بھٹو اپنے والد کی سیاست کے پیچھے کھڑے نظر آئے اور کئی سیاسی پنڈتوں کے بقول پیپلز پارٹی کا یہ عمل جمہوری عمل کو عملا کمزور کرنے کا سبب بنا۔

اس وقت بلاول بھٹو کافی جارحانہ انداز میں سامنے آئے ہیں۔ وہ عمران خان سمیت اسٹیبلیشمنٹ پر سخت تنقید کرکے اس تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ایک بڑی سیاسی جنگ لڑنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ان کے سامنے پارٹی کا بڑا بحران احتساب کا شکنجہ بھی ہے۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور سمیت کئی اہم راہنما نیب کے شکنجے میں ہیں اور بلاول بھٹو اس احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام کے بیانیہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ان کے بقول اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ اور حکومت کا باہمی گٹھ جوڑ ان کی پارٹی، خاندان، جمہوریت اور سیاسی نظام کے خلاف ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو نواز شریف بھی پیش کرتے ہیں اور اب دونوں بڑے سیاسی فریق باہمی بیانیہ پر متفق نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بلاول بھٹو کو نواز شریف مظلوم نظر آتے ہیں، مگر پانامہ کے فیصلے پر خود بلاول سمیت ان کی پارٹی نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ کو درست اور اپنی سیاسی فتح کے طو رپر پیش کرتی تھی۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے لوگ ہمیشہ سے یہ منطق دیتے تھے کہ ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان بالخصوص پنجاب میں نواز شریف کے ساتھ مفاہمتی عمل نے پہنچایا۔ وہ کھل کر آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی پر تنقید کرتے تھے اور بلاول بھٹو سے توقع رکھتے تھے کہ وہ اس سیاسی حکمت عملی سے کنارہ کشی اختیار کریں گے۔ اس وقت نواز شریف کی مظلومیت میں ان کی پارٹی سے زیادہ پیپلز پارٹی پیش پیش ہے۔ یہ ہی وہ پالیسی ہے جو آصف زرداری کی بھی تھی اور اب بلاول بھٹو بھی اسی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اس سیاسی حکمت عملی کا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہورہا ہے کہ دونوں جماعتیں ان کے خلاف ایک بار پھر یکجا ہوگئی ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حالیہ دنوں میں بلاول نے اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف جو نیا محاذ کھولا ہے اس کی بڑی وجہ ان کے خاندان پر مقدمات ہیں اور وہ ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرکے کوئی سیاسی ریلیف چاہتے ہیں۔ ایک طرف ریاست اس بیانیہ کو دنیا کے سانے پیش کررہی ہے کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششوں کا حصہ ہیں اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کافی حد تک بڑھا ہے۔ مگر بلاول بھٹو بضد ہیں کہ پاکستان کی ریاست جھوٹ بول رہی ہے اور وہ دہشت گردوں کی محافظ ہے۔

یہ ہی وہ بیانیہ ہے جو بھارت کا ہمارے خلاف ہے اور بھارت اسے ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے۔ یہ کہنا کہ ریاست یا حکومتوں کی سطح پر ہم نے کچھ نہیں کیا یا دہشت گردی یا دہشت گردوں کی سرکوبی نہیں کی اور ہم اپنے آپ سمیت دنیا کو بے وقوف بنار ہے ہیں، مکمل سچ نہیں۔ یہ جوریاست اس وقت مجموعی طور پر دہشت گردی سے باہر نکلی ہے اس کی حمایت نہ کرنا بھی سیاسی بدیانتی ہوگی۔

بلاول بھٹو کی روایتی سیاست کا ایک عملی مظاہرہ یہ ہے کہ وہ یہ قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں کہ ان کی پارٹی میں کوئی کرپٹ اور بدعنوانی کے کھیل کا حصہ دار ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ شفافیت پر مبنی نظام کو قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں خود بڑا مذاق ہے۔ یہ مسئلہ بلاول بھٹو تک محدود نہیں بلکہ زیادہ تر سیاسی قیادتیں جمہوریت، کرپشن اور بدعنوانی کے درمیان جو فرق ہے اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں یا ان کا مفاد اس میں رکاوٹ ہے۔

وہ نیب پر تو بہت تنقید کرتے ہیں اور اسے جمہوریت مخالف قوتوں کے طو رپر پیش کرتے ہیں۔ مگر ان جمہوری قوتوں کے پاس بھی ایسی مثالیں موجود نہیں جو یہ ثابت کرسکے کہ یہ لوگ واقعی احتساب اور شفافیت کے نظام پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ادارے ان کے حق میں استعمال ہوں یا اسٹیبلیشمنٹ کسی کی مخالفت میں ان کی حمایت کرے تو سب ٹھیک ہے وگرنہ پھر اسٹیبلیشمنٹ مخالف سیاست کو بطور سیاسی ہتھیار کے استعمال کیاجائے۔

پیپلز پارٹی اور بلاول اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان کی جماعت کیونکر سیاسی طور پر سکڑی ہے اور کیوں ان کا شہری علاقوں میں ووٹ بینک ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ محض سارا الزام اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال کر کوئی بھی جماعت اپنی داخلی کمزوریوں اور ناکامیوں کو نہیں چھپاسکتی۔ یہ بھی سمجھنا ہوگاکہ کیا وجہ ہے کہ وہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی نئی نسل میں کوئی بڑی مقبولیت کا اثر پیدا نہیں کرسکے۔ شہری سیاست کے جو حالات بدلے ہیں ان کا بھی تجزیہ اول تو موجود نہیں اور نہ ہی ایسی کسی حکمت عملی پر وہ کام کررہے ہیں جو شہروں میں پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ یا سندھ کی حکمرانی کی شفافیت کو بحال کرسکے۔ 18 ویں ترمیم پر وہ اسٹیبلیشمنٹ پر خوب برستے ہیں لیکن سندھ میں مقامی حکومتوں کے نظا م کو مقامی خو دمختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔

بلاول نے بظاہر یہ طے کرلیا ہے کہ ان کو پارٹی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کو لے کر ہی آگے بڑھنا ہے۔ لیکن اس سے بکھری ہوئی پیپلز پارٹی کو کوئی بڑ فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کا ایک بڑا نقصان خود بلاول کی سیاست کو ہورہا ہے جو خود کو متبادل اور بہتر قیادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

بلاول کو سمجھنا ہوگا کہ ایک بیانیہ وہ پیش کررہے ہیں جبکہ دوسرا بیانیہ ان کی پارٹی کے نظریاتی، پرانے اور کچھ کرنے سے جڑے سیاسی کارکنوں کا ہے جو سمجھتے ہیں کہ پارٹی اپنی اصل سیاست سے دور چلی گئی ہے اور اس کی بحالی کے بغیر بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔ ان کا چیلنج موجودہ پالیسی یا سیاست سمیت ان افراد سے جان چھڑانا ہے جو پارٹی پر بوجھ بن چکے ہیں، مگر وہ تیار نہیں۔ بلاول کی سیاسی ناکامی ایک بڑی سیاسی ناکامی ہوگی اور اس کی وجہ فرسودہ سیاست، کمزور فیصلوں سمیت روایتی سیاست اور خود آصف زرداری ہوں گے جو پارٹی پر غالب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).