قومی ترقی: امروز و فردا کی تصویر


ضمیر زندہ اگر ہے تو مر رہا ہے اور زند ہ قوم خواب خرگو ش کے مزے لے رہی ہے۔ میرے شہروں اور دیہاتوں میں زند گی تو ہے زند ہ ضمیر ی نہیں ہے۔ لوگو ں کے جیتے جاگتے ڈ ھانچے سطح ارض پاک پر یوں رقصاں میں جیسے اندھیرے میں آ سیب۔ ہم فکری انتشار کا شکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے سا تھ کردار ی خصائل کھو رہے ہیں۔ ہما رے قومی جذبات سرد ہو رہے ہیں۔ اور ہم بہ حیثیت قوم جمود اور سرد مہری کا شکار ہیں۔

بقو ل ا قبا ل:۔ ”تیر ے محیط میں کوئی گوہر زندگی نہیں  ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف“ وہ عوامل جو اس انحطا ط کا باعث ہیں ان کا کھو ج لگا نا کو ئی د شوا ر نہیں صرف ایک لمحے کو اپنے معا شر تی اور معاشی ڈ ہا نچے پر نظر دوڑا تی ہو گی۔ اور تا ریخ کے ا وراق سمیٹنا ہو ں گے۔ ہر چیز عیا ں ہو جا ئے گی۔ قیام پا کستا ن تا ر یخ عا لم کا ایک تا نبا ک با ب ہے۔ یہ ایک آ فتا ب ِ تا زہ کا وجود تھا۔

 با د صبا کے خو شگو ار جھو نکے کی طر ح اس نے عا لم ا سلا م کو معطر کیا تھا اور عالمی سیا ست میں ایک قابل قد رو جو د کی حیثیت سے ا پنا تعا ر ف پیش کیا تھا۔ قا ئد اعظم اسے اسلامی تمدن کا گہو ارا بنا نا چا ہتے تھے ایک ایسی تجر بہ گا ہ جہا ں سے ا قو ام عا لم کی ر ہنما ئی کے لئے مثا ل مہیا ہو سکے۔ قا ئد ا عظم کی نظر یقینا سیا سی و معاشی نظر یا ت پر بہت گہر ی تھی ا سی لئے آپ نے ا سٹیٹ بنک کے ا فتتاح کے مو قع پر مغر بی معاشی نظا م کو تنقید کا نشا نہ بنا یا۔

 یہ ا س با ت کا ا ظہا ر یہ تھا کہ قا ئد ا عظم ا سلا م کو بطور معاشی و سماجی اور سیاسی نظر یہ مقد م اور معتبر جا نتے تھے اور نو آ زاد ریاست میں ان اصو لو ں کا نفا ذ چا ہتے تھے۔ قا ئد ا عظم کی و فات حسر ت آیا ت نے جہا ں پو ر ی قوم کو مغمو م کیا و ہا ں ریاست کے اسلامی تصور کے فروغ کو بھی نقصا ن پہنچایا۔ آ پ کے قومی تصور کو آپ کے پیشر و نہ پہنچ سکے چنا نچہ ہم سا لہا سا ل پنجا بی، سند ہی، بنگا لی، بلو چ اور پختو ن قو میتو ں کے نعروں کی گو نج سنتے ر ہے۔

 معاشی عدم توازن اور نوکر شاہی کے رعونت بھرے ا ندا ز نے قو م کوغیر وں کی غلا می سے آزا دی ملنے کے باوصف مخصوص طبقہ اشرافیہ کی جھو لی میں ڈال دیا۔ امیر حال مست بھی تھے حا ل مست بھی۔ اور غر یب مشقت کی چکی کے دونو ں پا ٹوں میں پستے چلے گئے۔ آ مر یت سا لو ں لے قومی یکجہتی اور ہم آ ہنگی کو پا رہ پا رہ ر کے ر کھا کہ آ مر یت کو تقسیم ہی راس آ تی ہے۔ آ زا دی کے بعد کا ا بتد ائی عشرہ تو ا سی فیصلے کی نذ ر ہو گیا کے ملک کے دو نو ں با ز ؤ ں میں تو از ن کس طر ح قا ئم کیا جا ئے ایک طرف بنگلہ بو لنے وا لو ں کی ا کثر یت تو د وسری طرف مٖٖٖٖٖٖٖغر بی پا کستا ن کی جا گیر دا را نہ سو چ ا گر حکو مت کا حق لند ن کے گو ر ے کو نہیں تو اسلا م آ با د کے مکین کو کس طر ح مل سکتا ہے جبکہ رائے د ہند گا ن کی ا کثر یت ا سے قبول بھی نہیں کر تی۔

 سیاسی کاریگر وں نے مسلسل کوشش جاری ر کھی کہ قوم کو جمہو ر یت کی خو شبو سے دو ر کھا جا ئے اور ا لیکشن جیسی خر ا فا ت سے بچا کر اس قوم کی پر ور ش کی جا ئے کبھی ایک طا لع ا ٓ زما نظر یہ ضرورت کا سہا را لیتا نظر آ یا تو کبھی دوسرا ا ختیا رات کی مر کز یت کا گھنٹہ گھر تعمیر کر تا ملار ہی قوم اور قومی فکر کی تعمیر تو اس کی کسے پر وا تھی۔ حکو مت چلتی ر ہے اور جیب بھر تی ر ہے یہیمد عا و منتہیٰ تھا۔ آخر کا ر سا نحہ مشر قی پا کستا ن نے پو ری قو م کو ر لا یا بھی اور نظر ی ا نتشا ر کا شکا ر بھی کیا ہم آج بھی ا سی مخمصے کا شکا ر ہیں۔

 کہ ہما ری قومی اساس کیا ہے اور تر جیحا ت کیا ہیں۔ کہ سبق تو ہر طا لع آ ز ما نے پڑ ہا یا مگر خو د پر نا فذ کو ئی بھی نہ کر سکا۔ جمہو ر یت کو سیا ست اور اسلا م کو د ین کہنے و الے نہ جمہو ر ی ر و یو ں کے حا مل تھے نہ اسلا می فکر سے آگاہ۔ اسلا م کے پر چارک وردی سمیت ا سلا م سے زیا دہ اسلا م آبا د کے پیا رے ہو گئے اور ان کی روحا نی او لا دیں آج تک خو ن آ شامم آ سیب کی طر ح ملک کا خو ن چو س ر ہی ہیں۔

 کبھی جمہو ریت کے نا م پر کبھی ووٹ کی عزت کے نام پر جن کی طا قت کا سر چشمہ عو ام تھی وہ عو ام سے کٹ کر شا یا نہ محلا ت کے مکین ہو گئے او ر ”خونِ خا ک لشینا ں ر ز ق خا ک ہی ر ہا۔ “ مند ر جہ با لا نو حہ صرف میر ا نہیں بلکہ پو ر ی قو م کا ہے۔ کیا و جہ ہے کہ ہم بطو ر قو م ا پنا لو ہا نہیں منو ا سکے اور آج بھی پسما ندہ اور ہم غلا ما نہ ز ند گی گز ار ر ہے ہیں؟ کیا و جہ ہے کہ بہتر ین د ما غی صلا حیتو ں اور ا نسا نی و سا ئل کے با و جو د ہم تر قی کی ا بتد ائی منا زل پر ہی ا قو امِ عا لمیت سے پچھڑ ے نظر آتے ہیں؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2