دہشت گردی اور انسانیت کے نئے زاویے!


اگرچہ دنیا کے لیے دہشت گردی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، مگر سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد دنیا کے سامنے دہشتگردی اور انسانیت کے کچھ نئے زاویے ضرور نمودار ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کو عام طور پر مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے، مگر سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد اس خیال کو مزید تقویت ملی ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا دہشتگردی مذہب، نسل یا قومیت وغیرہ کے سائے میں، کہیں بھی اور کبھی بھی رونما ہوسکتی ہے۔ سفید فام دہشت گردی کے تذکرے پہلے بھی ہوتے تھے مگر دنیا نے اس کی بھیانک شکل کرائسٹ چرچ میں دیکھی۔

مغرب میں تنگ نظر جماعتوں کا ابھار، گستاخانہ خاقے، عراق پر فوج کشی، اور ذرائع ابلاغ کا متعصبانہ کردار، یہ سب کچھ اس مائینڈ سیٹ کی غمازی کرتا ہے، جس نے سانحہ کرائسٹ کو جنم دیا۔ مگر کرائسٹ چرچ میں دہشتگردی پر انسانیت غالب آتی ہوئی نظر آئی۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ جس طرح دہشتگردی کا کوئی مذہب، نسل اور ملک نہیں ہے، اسی طرح انسانی عظمتوں کا بھی کوئی یک طرفہ حوالا نہیں ہے! نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جسینڈا آرڈن انسانی عظمت کی ان بلندیوں کا مینار نظر آئی، جہاں وحشت کی آنکھیں شرمسار ہو جاتی ہیں۔

جہاں نفرتوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جب جسینڈا آرڈن آبدیدہ آنکھوں سے سیاہ لباس میں ملبوس، اسلامی تعلیمات کا حوالہ دے کر مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کر رہی تھی تو شیطانیت پر انسانیت کی فتح تمام سرحدیں عبور کر رہی تھی۔ نیوزی لینڈ میں ریڈیو اور ٹیلیویزن سے گونجتی ہوئی اذان کی آواز اور مساجد کے سامنے پھولوں کے ڈھیر، اس بات کا ثبوت تھا کہ عملی انسانیت کسی ایک مذہب کی میراث نہیں ہے۔

دنیا کا کوئی مذہب، کوئی نظریہ بیگناہ انسانوں کے بہتے خون سے لطف اندوزی کا درس نہیں دیتا۔ محبت، امن، ہمدردی اور بھائیچارہ ہی ہے، جو دنیا کو حسین بناتا ہے۔ یہ ہی وہ حسن تھا جس نے وحشت کی تاریکی میں ڈوبتے کرائسٹ چرچ کو چند دنوں میں ہی رنگین بنا دیا، کیونکہ وحشت کی ہار ہوئی اور انسانیت جیت گئی۔ مگر ہمیں بھی اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ اور اپنے آپ سے یہ پوچھنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ہی سہی، نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جیسے فراخدل اور انسان دوست ہونے کا عملی مظاہرہ کرنے کی جرئت کر سکتے ہیں۔

کیا ہمارے اندر، آسٹریلین کرکٹر ڈین جونز جتنی انسانیت موجود ہے جوکہ کرکٹر آصف علی کی کینسر میں مبتلا بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوکر پریس کانفرنس سے چلے گئے تھے! کیا ہم ایک پاکستانی خاتون جتنے اہل دل ہو سکتے ہیں، جس نے کرائسٹ چرچ سانحے میں شہید ہونے والے اپنے شوہر کے سفاک قاتل کو ذہنی سکون کی دعا کی تھی۔ یہ ہی نہیں بلکہ ہمیں تو انسانیت کو رنگ، نسل، زبان اور عقائد کے تفرقوں سے بالاتر ہوکر دیکھنا اور سمجھنا ہوگا! بلکہ ہمیں تو خود کو بھی نئے زاویوں سے دیکھنا اور سمجھنا ہوگا! کیونکہ ہماری اکثریت نے ہمیشہ دوسروں کو ناقدانہ نظروں سے دیکھا ہے مگر اپنی اصلاح پر کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).