طیب حسین کو کون اکساتا ہے؟


بہاولپور میں ایک طالبعلم خطیب حسین کے ہاتھوں پروفیسر خالد حمید کے بہیمانہ قتل کے بعد بعض میڈیا رپورٹس میں یہ بات آئی ہے کہ تفتیش کی جا رہی ہے کہ خطیب حسین کو اس بہیمانہ قتل پر کس نے اکسایا؟ آئیے اس حوالہ سے چند ممکنہ محرکات کا جائزہ لیتے ہیں۔

کوئی فرد یا معاشرہ جب ذہنی پستی میں مبتلا ہوتا ہے تو جہاں اس کے اور نتائج نکلتے ہیں وہاں ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے معاشرہ میں نرگسیت کا احساس جنم لیتا ہے۔ نرگسیت ایک ایسا احساس ہے کہ جو انسان کو اس خمار میں مبتلا کر تا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے بہتر ہے۔ نرگسیت والا یہ مزاج علاقائی، لسانی، جغرافیائی یا پھر مذہبی ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بحیثیت قوم ہم مذہبی طور پر نرگسیت کا شکار ہو گئے ہیں اور اپنے اس مزاج کی بدولت اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ کسی دوسرے نظریہ یا فکر کا وجود ماننے کو ہی تیار نہیں اس لئے جہاں کہیں ایسا انسان اپنے مخالف نظریہ یا سوچ کو دیکھتا ہے تو اپنے اس نرگسی مزاج کی تسکین کی خاطر وہ خطیب حسین بن جاتا ہے۔

اس رویہ کی وجہ یہ بات بنی کہ گذشتہ تین چار دہائیاں قبل معلوم نہیں کہ ہمارے سر پر کیا خبط سوار ہوا کہ نیل سے لے کر تابخاک کاشغر اپنا تسلط قائم کرنے کی ٹھان لی اور پھر مذہبی منافرت پر مشتمل ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دیا اور پھر پرُخار راستہ اپنا لیا چنانچہ اس طرح کے راستہ کے متعلق ہی منیر نیازی نے کہا ہے کہ

تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط

اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

گزشتہ دو تین صدیوں پر محیط ہمارا سفر رائیگانی ہماری ستر ہزار قیمتی جانوں کو کھا گیا اور ہنوز ہم یہ تفتیش کررہے ہیں کہ خطیب حسین کو کون اکساتا ہے؟ ہم نے اپنے چمن میں نفرت کے بیج بوئے اور پھر اپنی پوری قوت لگا کر ان بیجوں کی آبیاری کی اور اب جب فصل تیار ہوچکی ہے اور خطیب حسین جیسے پھل دے رہی ہے تو ہم حیران ہیں کہ خطیب حسین کو کس نے اکسایا؟ ہمارے شعور کے بھی کیا کہنے کہ ستر ہزار قیمتی جانیں گنوا کر ہم ابھی اپنے شعور کی اس منزل تک پہنچے ہیں جہاں ہم صرف یہ سوال کر رہے ہیں کہ خطیب حسین کو کون اکساتا ہے؟ ہم کب خطیب حسین بننے کے محرکات جان پائیں گے اور پھر ان محرکات کا تدارک کب کریں گے؟

کچھ عرصہ قبل کہ جب پاکستان میں خون کی ہولی زوروں پر تھی اور آئے دن کسی نہ کسی جگہ ارض پاک میں انسانیت لہو لہو ہو رہی تھی تو بعض عبقری ٹیلی ویژن پر یہ راگ الاپ رہے تھے کہ ہماری قوم ایک بہادر قوم ہے کہ ہر دل دہلا دینے والے سانحہ اور کٹی پھٹی لاشوں کو اٹھانے کے فوراً بعد اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتی ہے۔ حیرت آتی تھی ان صاحبوں کی عقل پر کہ کیا قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد اپنے نقصان کا اندازہ لگائے بغیر اور ہر سانحہ کے محرکات کو جانے بغیر اور یہ بات یقینی بنانے کے بعد کہ ایسا سانحہ دوبارہ نہ ہو نارمل زندگی کی طر ف فوراً لوٹ آنا بہادری کی علامت ہوا کرتی ہے؟ واضح ہو کہ ایسا رویہ کمال درجہ کی ذہنی پستی کی علامت ہوا کرتا ہے اور جو قومیں ایسا رویہ دکھاتی ہیں تو پھر ان میں سانحہ آرمی پبلک سکول جیسے سانحات ہونا بعید از عقل نہیں۔

نیوزی لینڈ کی مثال ابھی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح قیمتی جانوں کے نقصان پروہاں موجود ہر طبقہ ہائے زندگی کی طرف سے قابل تقلید رویہ کا مظاہرہ کیا گیا چنانچہ اِس جمعہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا آغاز حضرت بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے کیا کہ مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے جب جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ افسوس کہ جنہیں ہم دہریت سے موسوم کرتے ہیں وہ کس طرح اس ارشاد مبارک پر عمل کر کے دنیا کے لئے ایک نئی مثال قائم کر رہے ہیں اور وہ جو اس ارشاد کے اول مخاطب ہیں انہیں اپنے قومی بھائیوں کا درد محسوس نہیں ہو پاتا۔

خطیب حسین کوئی فرد واحد نہیں بلکہ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو پوری طرح ہمارے معاشرہ میں سرایت کر چکا ہے اور اس کے نتائج سلمان تاثیر، مشال خان، پروفیسر خالد حمید اور دیگر ہزار ہا نامعلوم معصوم اور قیمتی انسانیت کے ناحق خون کی صورت میں سا منے آ رہے ہیں۔ یہ امر ضروری ہو گیا ہے کہ قومی طور پر تمام ذرائع کو بروئے کار لاکر اس نظریہ کو فروغ دینے والے اسباب کو ختم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنا یا جائے کہ آئندہ کوئی بھی خطیب حسین نہ بنے۔ اگر اس نظریہ کا خلوص نیت اور تما م مصلحتوں سے ماورا ہو کر تدارک نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے چمن کا ہر شگوفہ اور ہرغنچہ خطیب حسین کی شکل میں نکلے گا اور ہمارے ملک کے ہر شہر کے ہر محلے کے ہر گھر میں خطیب حسین ہو گا۔

افسوس کہ ہم اپنے بسیار نقصان کے بعد ابھی تک نوشتۂ دیوار کے پڑھنے سے بھی قاصر ہیں اور آئندہ درپیش ہولناک مصیبت سے غافل ہیں چنانچہ اپنی اس حالت پر فیض صاحب کی ایک مشہورنظم یاد آجاتی ہے

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن

جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا

کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).