وہ لال اوڑھنی والی


وہ خوف اور تجسس آنکھوں میں لیے جنگلے سے سرکی ہوئی چادر سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں بڑی آپا کے ساتھ ہی کوئی اور بھی تھا۔ وہ چادریں لے کر نکلنے کے لیے تیار ہی تھی جب بڑی آپاکو بھی اماں جنگلے میں چھوڑ آئیں۔ مگر انہیں کمرے سے نکالنے سے پہلے پہلے صحن کے کونے پہ پڑا تازہ اچار کا مرتبان چھپانا نہیں بھولیں۔ وہ خاموشی سے سب ہوتا دیکھ رہی تھی اور ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔ اماں نے بڑی آپا کے گلے میں پڑا مقدس تعویز بھی اتار دیا اور پانی بھی دور کر دیا۔ اماں کہتی تھیں جس پہ یہ بلا آتی ہے اس کے لیے پانی آگ ہوجاتا ہے۔ نسلیں جلا دیتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ *۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ *۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ *۔ ۔ ۔ ۔

فیروزہ نے لحاف سر سے سرکایا۔ باہر پورے صحن میں جنوری کی نرم نرم دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ لحاف لپیٹے لپیٹے اٹھی اور صحن کے بیچوں بیچ پڑے پلنگ پہ آکر ڈھیر ہوگئی دوبارہ آنکھ کھلی تو دھوپ تیز ہوچکی تھی باقی سب تو نجانے کب جاگ کر کاموں سے لگ چکے تھے۔ اس نے ایک طویل انگڑائی لی کہ دونوں بازو اور ایک ٹانگ پہ سے لحاف سرک گیا۔ ہوا میں ذرا سی خنکی محسوس ہوئی تو اس نے دوبارہ ٹانگ اور بازو لحاف میں چھپا لیے۔ ذہن اب بھی کچی پکی نیند سے بوجھل تھا۔

اس نے سر بھی دوبارہ لحاف میں گھسا کر آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ ہی دیر بعد ہلکی ہلکی تپش سے جسم میں سوئیاں سی چبھنے لگیں۔ گردن کے نیچے پسینے کی چپچپاہٹ محسوس ہورہی تھی مگر اسے لگ رہا تھا جسم ٹوٹ سا رہا ہے۔ دوپہر کی نسبتاً تیز دھوپ میں بھی اس کا لحاف سے نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ کچھ دن سے اس کی عادتیں اور نیندیں سب الٹ پلٹ ہوگئی تھیں۔ کبھی دل چاہتا خوب ہنسے رنگ برنگے کپڑے پہنے، سہیلیوں سے سرگوشیاں کرے، اور کبھی ایسا جی اچاٹ ہوتا کہ ساری دنیا دشمن لگتی۔

اور سب سے بڑی دشمن اماں لگتیں جنہیں اب ہر بات پہ ٹوکنا ہوتا تھا۔ چلنے پہ ٹوکنا، ہنسنے پہ ٹوکنا، لڑکوں سے بات کرنے پہ ٹوکنا، بچوں کے ساتھ کھیلنے پہ ٹوکنا بڑوں کے ساتھ بیٹھنے پہ ٹوکنا۔ اماں کی ساری توجہ ابھرتے سینے کو چھپوانے پہ ہوتی تھی اور وہ اس مبہم سے شباب میں ہوتی دکھن سے پریشان۔ مسئلہ صرف بدلتے جسم کا ہی نہیں تھا بچپن سے جن کے ساتھ کھیل کے بڑی ہوئی تھی ان کی نظریں بھی تو بدل گئیں تھیں۔ کچھ میں جھجھک در آئی تھی کچھ میں احترام مگر کچھ نظریں اندر تک چیرتی تھیں۔

کبھی رات دیر تک تارے گنتی رہتی اِدھر اُدھر کی باتیں سوچتی رہتی۔ اماں ابا سے پڑی ڈانٹ یاد کر کر کے تکیے میں منہ چھپا کے بلاوجہ روتی رہتی اور نیند آتی تھی کہیں جاکر فجر کی اذانوں کے وقت۔ پھر اٹھنے میں دیر ہوجاتی اور آدھا دن یوں ہی گزر جاتا۔ آخر کار اماں نے آکر لحاف کھینچ ہی لیا۔

”اٹھ جا، کب سے چادریں تیار کر کے رکھی ہیں۔ رات کو بلاوجہ دیر دیر تک جاگتی ہے اور دوپہر تک پڑی سوتی رہتی ہے۔ “ وہ سست قدموں سے اٹھی جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے، اجلا سا دوپٹہ اچھی طرح سر پہ ڈھکا، ایک کپ چائے سے دو پاپے کھائے اور کڑھی ہوئی چادروں کی گٹھڑی اٹھا کر باہر کی طرف قدم اٹھائے۔

” ارے رکُ تو، بڑی ہوتی جا رہی ہے دھیان کر۔ “ اماں نے میلے کپڑوں سے کھنگال کر ایک میلی سی بدبودار چادر اس کے صاف ستھرے لباس پہ لپیٹ کر اسے تقریباً پورا ڈھک دیا۔ اسے ایک دم ابکائی آئی۔

”افف اماں یہ بہت گندی ہورہی ہے اتارو اسے۔ “

”شش، چپ کر۔ تجھے پتا ہے وہ آنے والی ہے، اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ “ اماں نے دبی آواز میں اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔

” اماں کون آئے گی۔ میں نے کیا کیا ہے جو مجھے پکڑے گی۔ “ اپنے خوف کو جھنجھلاہٹ میں چھپانے کی کوشش میں اس کی آواز لاشعوری طور پہ کچھ بلند ہوگئی۔

”آہستہ بات کر، اس کا نام یوں نہیں لیتے، وہ برا مان جاتی ہے۔ “ اماں نے اس کی بازو پہ بہت زور سے چٹکی لی۔ ان کی آنکھوں میں بہت سخت تنبیہہ تھی، ایک انجانا خوف بھی۔ اسی وقت ابا کمرے سے باہر نکلے

”اچھا کل کی طرح سستے میں چادریں نا بیچ آنا۔ اور نئے ڈیزائن سڑک پہ مت لٹکانا جب کوئی گراہک کہے تو نکال کے دکھانا۔ گاڑیوں سے بچ کے کھڑی ہونا۔ “ اماں نے یوں کہا جیسے کافی دیر سے یہی بات چل رہی ہو۔ وہ سر ہلا کر دروازے تک آگئی۔ اسی وقت سامنے والی خالہ مختاراں کے گھر کا دروازہ کھلا اور خالہ، بتول باجی کو غلیظ چادر میں چھپائے نکلیں اور گھر کے نکڑ پہ بنے جنگلے میں دھکیل کر فوراً جنگلے کو ایک اور چادر سے چھپا دیا اور واپس گھر میں چلی گئیں۔

اس نے خوف زدہ نظروں سے پیچھے آتی اماں کی طرف دیکھا۔ اماں کی نظروں میں وہی تنبیہہ تھی۔ وہ اور سہم گئی اور تیز قدم اٹھاتی گلی کے کونے تک آگئی۔ ایک انجانے سے احساس کے تحت مڑ کے دوبارہ خالہ مختاراں کے گھر کی طرف دیکھا۔ دیوار کی اوٹ سے ایک لال اوڑھنی والا سر جھانک رہا تھا جو اس کے مڑ کے دیکھتے ہی دیوار کے پیچھے غائب ہوگیا۔ فیروزہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اس نے قدموں کی رفتار مزید بڑھا دی۔ کئی بار اسے لگا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے لیکن جب جب مڑ کے دیکھتی کچھ نظر نہیں آیا۔

وہ کوشش کر ہی تھی کہ تنگ گلیوں سے جلد گزر جائے۔ دس منٹ بعد جب وہ قریبی ہائی وے پہ اپنے مخصوص مقام پہ پہنچی تو اس کی سانس معمول سے زیادہ پھولی ہوئی تھی۔ فیروزہ نے سڑک پہ جانے سے پہلے درختوں کی اوٹ میں ہی اماں کی اڑھائی چادر اتار کے پوٹلی میں رکھ لی اور دوپٹا ٹھیک کر کے سڑک پہ آگئی۔ اور کچھ دیر سانس لینے وہیں سڑک کے کنارے رکاوٹ کے لیے لگے کالے پیلے پتھروں میں سے ایک پہ بیٹھ گئی۔ وہیں لائن سے چند کھوکھے اور بھی تھے۔ ایک پنکچر کا کھوکھا، ایک پان سگریٹ کا، کچھ فاصلہ چھوڑ کے بوتلیں جوس اور ایزی لوڈ کا کھوکھا۔ سڑک کے دوسرے کنارے پہ درخت کے نیچے ایک امرود والا ٹوکری لیے بیٹھا تھا۔ اس کی ٹوکری میں موسم کے حساب سے پھل اور چیزیں بدلتی رہتی تھیں۔

اس کے ساتھ ہی چائے پکوڑوں کی چھوٹی سی دکان تھی جس کے اردگرد کچھ لکڑی کی بنچیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ یہ سب ایک دوسرے کو بہت عرصے سے اچھی طرح جانتے تھے۔ پنکچر والا تو اسی کے علاقے کا تھا۔ باقی سب اردگرد کے قریبی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ویسے تو یہاں اماں کے ساتھ آتی تھی۔ مگر جب سے وہ کچھ سمجھ دار ہوگئی تھی تو اماں اسے اکیلے بھی بھیج دیتی تھی۔ جب جب اماں کی ٹانگوں میں درد زیادہ ہوتا تھا تو فیروزہ کو اکیلے ہی آنا پڑتا تھا۔ اماں کو کئی سال سے ہڈیوں میں تکلیف ہو گئی تھی۔ یہاں اماں اور اس کی عمر سے بڑی سب ہی عورتوں کو کم و بیش یہ روگ تھا۔ سردیوں میں تو ایسا لگتا تھا ہڈیوں میں نشتر اتر رہے ہوں۔ چلنا پھرنا دوبھر ہوجاتا تھا۔

اس کی دونوں بڑی بہنیں سارا دن لگا کر چادریں کاڑھتی تھیں۔ پھر وہ اماں کے ساتھ یا کبھی اکیلے ہی، چادریں لا کر سڑک کے کنارے ترتیب سے لٹکا دیتی اور گزرتی گاڑیوں میں آنے جانے والوں میں سے کسی کو کوئی چادر پسند آتی تو خرید بھی لیتے۔ دن میں ایک دو چادریں بک ہی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی نہیں بھی بکتی تھیں۔ اندھیرا پھیلنے لگتا تو وہ سامان سمیٹ کر واپس آجاتی اندھیرے میں وہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کسی کو چادریں دکھائی نہیں دیں گی تو خریدے گا کیسے۔

وہ کچھ دیر سُستا کے اٹھی اور روز کی طرح چادریں دو کھوکھوں کے درمیان بندھی رسی پہ ٹانگ دیں۔ کچھ دیر یوں ہی آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتی رہی۔ کبھی کھوکھوں کے مالکوں کے چہروں کو غور سے دیکھ کر کچھ کھوجنے کی کوشش کرتی۔ پان والے کو شاید کچھ اندازہ ہو ہی گیا۔ اسے اشارے سے بلایا۔

”کیا ہوا۔ کیوں پریشان ہے۔ کچھ پوچھنا ہے کیا؟ “

”نہیں چاچا۔ “ وہ کہہ کر خاموش ہوگئی اماں نے منع کیا تھا اس کے بارے میں بات نہیں کرنی۔ پھر کچھ سوچ کر گھما پھرا کے پوچھا

”چاچا آپ کے علاقے میں سب خیریت ہے؟ “

”ہاں سب خیر ہے۔ اللہ پاک کا کرم ہے کیوں؟ “ ”سب ٹھیک ہے؟ مطلب کوئی نیا جانور، بَلا تو نہیں آگئی۔ مطلب وہ ہمارے علاقے میں کچھ دن سے چوزے گم ہورہے ہیں نا۔ سب کہہ رہے تھے یہ کوئی نئی بلا ہے۔ “ وہ بلا وجہ چوزوں کا ذکر لے آئی تاکہ اماں کی تاکید کا بھرم بھی رہ جائے۔

” نہیں نہیں ہماری طرف سب خیر ہے۔ تمہارے علاقے میں بھی کوئی آوارہ بلی ہوگی۔ اپنے کتوں کو ہشیار رکھو بس۔ “ وہ سر ہلا کر خاموش ہوگئی مزید پوچھنا فضول تھا چاچا کو بالکل اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ کیا پوچھنا چاہتی ہے۔

سارا دن یوں ہی کسی خریدار کے انتظار میں گزر گیا۔ جُھٹ پُٹے کا وقت ہوا تو وہ ساری چادریں سمیٹ کر واپسی کے رستے ہولی۔ دوبارہ وہی احساس ساتھ تھا جیسے کوئی پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے ایک بار مڑ کے بھی دیکھا تو ایسا لگا کہ لال اوڑھنی پہنے کوئی ہیولہ درختوں میں چھپ گیا ہو۔

پہلے سب کچھ کتنا پرسکون تھا۔ کوئی خوف نہیں وہ سارا دن بے خوفی سے گھومتی پھرتی تھی۔ اماں کے ساتھ جاتی تھی تو اِدھر اُدھر کھیلتی، اچھلتی کودتی پھرتی، بستر پہ لیٹتے ہی سوجاتی اور سورج کی پہلی کرن منہ پہ پڑتے ہی آنکھ کھل جاتی۔ مگر پچھلے کچھ ہفتوں سے اماں کے روئیے سمیت سب کچھ بہت پر اسرار ہوگیا تھا۔ اماں کسی نادیدہ بلا کی آمد سے ڈرانے لگی تھیں۔ اسے تب احساس ہوا کہ وہ بلا نئی نہیں ہے بلکہ شاید پہلے سے تھی۔

یہ ایسا راز تھا جو وہاں کی آدھی آبادی کے لیے وجود رکھتا تھا اور آدھی کے لیے سرے سے تھا ہی نہیں۔ بہت کچھ اس کے سامنے تھا مگر جیسے پہلے کوئی جادو تھا کہ نظر ہی نہ آتا تھا۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہاں کی عورتیں آپس میں سرگوشیاں کرتی ہیں جو شاید پہلے بھی تھیں مگر اسے اب سنائی دینے لگیں تھیں۔ کسی بھی دن کوئی جوان لڑکی کہیں کھو جاتی تھی۔ اور دوسری عورتیں پھر بھی اس کی موجودگی کا احساس دلاتی رہتیں۔ باپ بلاتا تو کہا جاتا پڑوس میں گئی ہے۔

بھائی پکارتا تو ماں یوں کھانا لاتی جیسے بیٹی سے لے کر آئی ہے۔ باپ بھائیوں کو اندازہ ہی نہ ہوتا کہ وہ نہیں ہیں۔ پھر وہ آجاتیں اور کسی کو احساس بھی نہ ہوتا۔ اسے ایک دن اتفاقاً پتا چلا یا شاید اب اسے یہ دکھانا مقصود تھا۔ جنہیں وہ کھویا ہوا سمجھتی تھی وہ تو یہیں تھیں گھر کے پاس بنے جنگلوں میں۔ وہ بلا جس لڑکی پہ آتی اسے گندی سی چادر میں چھپا کے قید کردیا جاتا تھا۔ وہ لڑکی سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی کھو جاتی تھی۔

فیروزہ الجھ جاتی۔ کیا گھر کے مردوں کو یہ جنگلے نظر نہیں آتے تھے۔ انہیں اس بلا کا پتا تھا یا نہیں۔ یا وہ جانتے ہوئے نا جاننے کا ڈھونگ کرتے تھے۔ کوئی لڑکیوں کو اس بلا سے بچاتا کیوں نہیں۔ وہاں صرف ایک گھر ایسا تھا جس کے باہر کوئی جنگلہ نہیں تھا۔ حالاں کہ وہاں بھی دو زنانہ وجود تھے۔ ماں جو کسی اور علاقے سے بیاہ کے آئی تھی اور ایک اس کی بیٹی۔ جو فیروزہ سے کچھ سال بڑی ہی ہوگی۔ شاید سولہ سترہ سال کی۔ اور صرف اس ایک جنگلے کے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کی عورتیں اس گھر سے دور رہتی تھیں۔ فیروزہ نے اس گھر کی عورتوں کو کبھی گندی چادر میں لپٹے نہیں دیکھا۔

وہ کبھی کبھی سوچتی کہ کیا مجھ پہ بھی یہ بلا آئے گی؟ یہ خیال ذہن میں آتے ہی وہ سہم جاتی تھی۔ وہ اس بلا کا خیال ذہن سے نکال نہیں پارہی تھی۔ کیا وہ خون پینے والی بلا ہے؟ کیا وہ میرا سارا خون پی جائے گی؟ پھر تو میں مر جاؤں گی۔ مگر باقی لڑکیاں تو نہیں مرتیں۔ انہیں سب سے الگ جنگلے میں کیوں قید کردیتے ہیں؟ کیا وہ خوفناک ہوجاتی ہیں۔ کیا وہ دوسروں کو بھنبھوڑتی ہیں؟ کیا وہ بھی بلا بن جاتی ہیں؟ اس کے ذہن میں اس بلا کا بہت خوفناک سا نقشہ بن گیا تھا۔ اسے خواب میں بھی لگتا کہ کوئی لال اوڑھنی پہنے اس کا پیچھا کر رہا ہے اور جب وہ اس کی شکل دیکھتی تو وہ لمبے لمبت دانتوں والی خوفناک کریہہ صورت والی بڑھیا ہوتی۔ خوف سے اس کی آنکھ کھل جاتی۔

آج پہلی بار اس کے سامنے بڑی آپا کو جنگلے میں بند کیا ورنہ کب کون سی بہن کھو جاتی تھی اسے پتا نہیں چلتا تھا۔ وہ بہت زیادہ ڈر گئی۔ جب ناشتہ کرکے جانے کے لیے نکلی تو اس کی نظر جنگلے پہ پڑی، ایک طرف سے چادر سرکی ہوئی تھی اور آپا کے ساتھ ہی کوئی لال اوڑھنی پہنے بیٹھی تھی۔ اس کے پیچھے پیچھے آتی اماں نے پھرتی سے چادر دوبارہ مکمل ڈھک دی۔ اسے ایک نظر میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ آپا کا چہرہ ویسا ہی تھا جیسا ہوتا ہے کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہ اور الجھ گئی۔

وہ جلدی جلدی سڑک کی طرف چل دی۔ اس کا دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے بس بلا اسے ہی پکڑنے آ رہی ہے۔ خوف سے پیٹ میں مروڑ سا ہورہا تھا۔ اس میلی چادر کی بدبو سے دل متلا رہا تھا۔ اسے اس چادر سے اتنی کراہیت پہلے کبھی نہیں محسوس ہوئی تھی اس نے حسبِ عادت چادر اتار کے پوٹلی میں رکھ لی۔ سڑک پہ پہنچ کر اس نے بہت بے دلی سے چادریں ترتیب سے لٹکائیں اور کونے پہ بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد مروڑ واضح درد میں بدل گیا۔ کافی دیر وہ درد برداشت کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر جب ہمت جواب دے گئی تو پنکچر والے کو چادروں کا دھیان رکھنے کا کہہ کر گھر کی طرف چل دی۔

اس میں پوٹلی اٹھانے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ ہاں بس اماں کی دی ہوئی چادر اٹھا لی اور رستے میں پہن لی۔ وہ جلدی جلدی چلنے کی کوشش کر رہی تھی کہ بس گھر پہنچے اور لیٹ جائے۔ ایک دم اس کے پیٹ میں درد کی لہر شدید ہوئی اور وہ ایک گھر کے چبوترے پہ بیٹھ گئی۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی جب کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

”تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔ “ اس نے سر اٹھا کے دیکھا تقریباً اسی کی عمر کی ایک معصوم سی نوعمر لڑکی اس کے پاس کھڑی تھی۔ لڑکی کے چہرے پہ صحت مندی کی سرخی واضح نظر آرہی تھی۔ اس لڑکی نے ہاتھ پکڑ کے اسے اٹھنے میں مدد کی اور جس گھر کے چبوترے پہ وہ بیٹھی تھی اسی میں لے جانے لگی۔ تب فیروزہ کو احساس ہوا کہ یہ وہی بغیر جنگلے والا گھر ہے۔ اسے پتا تھا کہ اسے یہاں نہیں جانا لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

اندر داخل ہوتے ہی لڑکی نے اندر موجود خاتون کو مخاطب کیا۔

”آج پھر کسی کو آپ کی ضرورت ہے۔ “

عورت دھیمے سے انداز میں مسکرائی۔

”تم اس کے ہاتھ پیر دھلواؤ بہت گرد ہو رہی ہے۔ “ عورت اندر کہیں چلی گئی لڑکی نے فیروزہ کی چادر اور دوپٹہ اتار کے پکڑ لیا تاکہ وہ آرام سے نیم گرم پانی سے ہاتھ پیر اور منہ دھو لے۔ فارغ ہوکر دوپٹہ دوبارہ اوڑھ لیا۔ چادر بھی اوڑھنی چاہی تو لڑکی نے اشارے سے منع کردیا اور نسبتاً صاف چادر اوڑھنے کے لیے دے دی۔

” اپنی والی دھو کے اوڑھنا۔ “

”اماں نے جیسے دی میں نے پہن لی۔ “

”ہر ذمہ داری اماں کی تو نہیں، جو تمہیں خود غلط لگتا ہے اسے تم خود ہی سدھارو گی نا۔ ان کی زندگی یہی چادر دیکھتے گزری ہے یہ کبھی انہیں گندی نہیں لگے گی۔ “

اس نے کچھ سوچ کے صاف چادر لے تو لی مگر یہ پتا تھا کہ اماں بہت ناراض ہوں گی۔ وہ آج کی ہر ہر غلطی پہ اپنی درگت بنتی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں صحن پار کرکے کونے میں بنے چھوٹے سے کمرے میں آگئیں۔ تب اس نے دیکھا کہ خاتون کے ساتھ ان دونوں سے بڑی ایک اور لڑکی بھی تھی جو یقیناً اس عورت کی بیٹی تھی۔ اسے خیال آیا پھر یہ لڑکی کون ہے؟ اس کی نظریں لڑکی پہ پڑیں تو لڑکی کے معصوم سے چہرے پہ شریر سی مسکراہٹ دوڑ گئی اور دوسری طرف دیکھنے لگی جیسے اس کی کیفیت سے محظوظ ہورہی ہو۔ شہد ملا دودھ پی کے اس میں کچھ طاقت آئی تو وہ جانے کے لیے اٹھ گئی۔ مگر پھر رک گئی اور عرصے سے دل میں موجود سوال پوچھ ہی لیا۔

”آپ کے گھر کے باہر جنگلہ کیوں نہیں۔ “ اس لگا شاید یہاں بلا نہ آتی ہو۔ اور وہ بھی جان سکے کہ اس بلا سے کیسے بچتے ہیں۔

”کیوں کہ تم لوگ جسے بلا سمجھتے ہو وہ بلا نہیں ہے۔ چلو گھر چلتے ہیں۔ “ خاتون کی بجائے اس کی ہم عمر لڑکی نے جواب دیا اورگھر سے نکلنے سے پہلے گلے کے گرد پڑی لال اوڑھنی سر پہ رکھی اور مضبوطی سے فیروزہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima