نصیر بھائی باربر ایف سی کالج


”یار ادھر دیکھ نظر نہیں آرہا“، میں کھڑکی میں لگی جالی میں سے جھانکتے ہوے چلایا ”ادھر کدھر مجھے تو نظر نہیں آ رہا“، دوست ادھر ادھر دیکھنے کے بعدجوابا چلایا۔ ”ادھر نہیں، نائی کی دوکان میں یار“۔ دوست بالآخر نائی کی دوکان میں داخل ہوا اور ساتھ ہی دوکان کے دوسرے حصے سے نصیر بھائی کام بیچ میں چھوڑ قینچی کنگھا ہاتھ میں لیے سامنے آن کھڑے ہوے اور آتے ہی نہائت سنجیدگی اور قدرے غصے سے سوال داغا ”یہ نائی کی دوکان کس نے کہا“ مجھے سوال کی منطق کچھ خاص سمجھ تو نہ آئی لیکن پھر بھی احتیاطا پوچھ لینا مناسب سمجھا ”نائی کی دوکان نہیں تو اور کیا ہے یہ“۔

نصیر بھائی لمحہ بھر کے لیے خاموش رہے اور پھر بولے کہ ذرا باہر بورڈ پڑھیے کیا لکھا ہے۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا باہر جا کر دوکان کے دروازے کے اوپر آویزاں سرمئی رنگ کے ایک پرانے سے لیکن صاف ستھرے بورڈ پر جو نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ جلی حروف میں درج تھا ”Barber Shop“۔ اندر آ کر فورا نصیر بھائی سے معذرت کی۔ وہ دن اور آج کا دن نصیر بھائی کی دوکان کو باربر شاپ اور نصیر بھائی کو صدق دل سے ہمیشہ باربر ہی سمجھا اور پکارا۔

نصیر بھائی کی باربر شاپ کالج کے کینٹین ایریا میں باسکٹ بال کورٹ کے اطراف میں بنی دوکانوں میں سے ایک تھی۔ ان کے برابر میں بک شاپ تھی۔ اس سے آگے این سی سی کا دفتر اور اس سے آگے غالبا جیمنیزیم تھا۔ ایف سی کالج میں چند ہفتے گزار لینے والا شاید ہی کوئی لڑکا ہو جو نصیر بھائی سے واقف نہ ہو۔ دبلے پتلے، کلین شیو، خوبصورت اردو میں بات کرنے والے، لگ بھگ 65 برس کی عمر کے قدرے تفاخرانہ مزاج کے حامل نصیر بھائی عموما صاف ستھری پینٹ شرٹ میں ہی ملبوس ہوتے۔

سردیوں میں کوٹ پہنتے۔ گردن میں تکلیف کی وجہ سے اکثر کالر لگائے ہوے نظر آتے۔ میری زندگی کی پہلی شیو بھی انہی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ کلاسوں، بستوں اور درسی کتابوں کی بے رنگ زندگی سے فرار حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے نصیر بھائی کی باربر شاپ ایک بہترین پناہ گاہ تھی۔ انگریزی اخبار روز کے روز وہاں موجود ہوتا۔ چمکتے براون چمڑے میں ملفوف ان کے ریڈیو سے خبروں اور کرکٹ میچوں کی کمنٹری کے علاوہ دھیمی آواز میں موسیقی بھی کبھی کبھار سنائی دے جاتی۔

نصیر بھائی کی زیادہ دوستی اور بے تکلفی البتہ کلاسوں وغیرہ کے گھن چکر ں سے مکمل طور پر آزاد قسم کے لڑکوں سے ہی ہوتی۔ بھٹو صاحب کی طرف سے ایف سی کالج کو نیشنلائز کیے جانے کے فیصلے کو ناپسند کرتے تھے اور مشن انتظامیہ کے دنوں کا تذکرہ ہمیشہ بہت شوق سے کرتے۔ انگریزپروفیسروں کی وضعداری اور اس زمانے میں ایف سی کالج میں زیر تعلیم نوابوں کے لڑکوں سے اپنے قریبی تعلق کو بھی اکثر یاد کرتے رہتے۔ غالبا لڑکپن سے ہی ایف سی کالج میں موجود تھے۔ کسی وقت پر باسکٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی تھے اور کالج میں بقول ان کے یہی ان کی وجہ شہرت ہوا کرتی تھی۔ جائے نماز ان کی دوکان میں موجود رہتا وہ نماز باقاعدگی سے پڑھا کرتے۔

کل 23 مارچ پر کسی ملی نغمے میں قائد اعظم کی جلسے سے تقریر کی ویڈیو دیکھتے ہوے اچانک نصیر بھائی یاد آگئے۔ بقول نصیر بھائی انہوں نے قائد اعظم کی تقریریں جلسوں میں براہ راست سن رکھی تھیں۔ قائد اعظم کی تقریر کا یہ جملہ تو وہ اکثر سناتے کہ قائد نے صحیح کہا تھا ”میری جیب میں سب کھوٹے سکے ہیں“۔ ”نصیر بھائی باربر ایف سی کالج“ گوگل کر کے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ 2011 میں انتقال کر گئے ہیں۔

آللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).