مریم نواز کا بلنڈر اور چغتائی لیب کی شامت


مریم نواز شریف نے کل اپنے والد کی لیب رپورٹ ٹویٹر پر جاری کرتے ہوئے لکھا ”ابھی میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپسی ہوئی ہے۔ ان کے ڈاکٹر کی تشویش بلاوجہ نہیں تھی۔ کل کیا جانے والا بلڈ ٹیسٹ بتا رہا ہے کہ ان کے کریٹینائن لیول میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے گردوں کا فنکشن مزید خراب ہوا ہے۔ ان کے گردوں کی بیماری پہلے ہی تیسری سٹیج پر ہے۔ ان کے پہلوؤں میں مستقل درد کی شکایت ہے“۔ اس ٹویٹ کے ساتھ انہوں نے چغتائی لیب کی رپورٹ کا پورا کاغذ ٹویٹ کر دیا۔

کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر چغتائی لیب کی سائٹ پر موجود میاں نواز شریف کی یہ لیب رپورٹ گردش کرنے لگی۔ اس میں ایڈریس کے خانے میں نواز شریف کے پتے کی جگہ لکھا ہوا تھا کہ ”پلیز پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس کرو آزادی سے جہاں مرضی رہو۔ آداب۔ @endlessquest92۔“

اس کے وائرل ہوتے ہی چغتائی لیب کے خلاف مہم چل پڑی کہ اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ وہ اپنے مریضوں کا نجی ڈیٹا محفوظ نہیں رکھتی ہے۔ یہ الزام بھی بلاتحقیق لگا دیا گیا کہ پیشنٹ کا صرف کانٹیکٹ ریکارڈ نہیں بلکہ لیب رپورٹ کا طبی مواد تبدیل کیا گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ چغتائی لیب کے ڈائریکٹر عمر چغتائی تحریک انصاف کے حامی ہیں اور اس سے قبل عمران خان کی حمایت اور نواز شریف کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر سرگرم رہے ہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا پر یہ کہا گیا کہ یہ تبدیلی چغتائی لیب کی کارستانی ہے اور وہ نواز دشمنی میں طبی اخلاقیات کو پار کر گئی ہے۔

پرانی ٹویٹس سامنے آنے پر ڈاکٹر عمر چغتائی نے ٹویٹ کیا کہ ”لوگوں نے میری چند پرانی ٹویٹس کی نشاندہی کی ہے جن میں میں نے میاں نواز شریف کے متعلق منفی اور نامناسب ریمارکس دیے تھے۔ سیاسی بحث جمہوریت کی طاقت ہے لیکن ذاتی ریمارکس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں ان ٹویٹس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ “

دوسری طرف سما نیوز کی ارم زعیم نامی اینکر نے ٹویٹ کیا کہ ”میاں نواز شریف کی چغتائی لیب کی آفیشل سائٹ پر رپورٹ کا لاگن ریزلٹ (ساتھ سکرین شاٹ ہیں)۔ جس شخص کے پاس بھی ٹریکنگ نمبر اور پیشنٹ آئی ڈی ہو جو مریم نواز شریف کی شیئر کردہ رپورٹ پر موجود ہے، رپورٹ کو ٹریک کر سکتا ہے۔ ایک اچھی چیز یہ ہے کہ میاں نواز شریف بہتر ہیں اور کچھ سیریس نہیں“۔

اس ٹویٹ کے نیچے wa5 نامی صارف نے جن کے ٹویٹر ہینڈل کے آگے وہی تحریف شدہ لیب رپورٹ والا ٹویٹر ہینڈل اینڈ لیس کویسٹ92 لکھا ہوا تھا، نہایت فخر سے کمنٹ کیا ”میں نے کیا ہے“۔

اس کے چند منٹ بعد ہی ان اینڈ لیسٹ کویسٹ صاحب کا اصل نام اور تصویر سوشل میڈیا پر عام ہو گئی۔ وہ مانچسٹر کے سید احمد افتخار ہیں جنہیں غالباً اب احساس ہوا ہے کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں۔ وہ اپنی ٹویٹس کو پرائیویٹ کرنے اور اپنی تصویر بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سید احمد افتخار کو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ نیٹ پر ایک مرتبہ جو چیز ڈال دی جائے اسے غائب کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں سے نکل آتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا اصل نام بھی نکل آیا۔

کسی مریض کا پرسنل ریکارڈ اس طرح تبدیل کرنا پاکستان سائبر کرائم ایکٹ کے تحت تو جرم ہے ہی جس کی اچھی بھلی سزا ہے، لیکن یہ برطانیہ میں بھی سنگین جرم سمجھا جانا چاہیے۔ وہ مریض کے پرسنل ڈیٹا کے بارے میں نہایت حساس قوم ہے۔ سید احمد افتخار اب شدید قانونی اور سماجی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

چغتائی لیب نے اس کے بعد پے در پے ٹویٹس کیں جن میں لکھا کہ ’ہمارے مریضوں کی لیبارٹری رپورٹ کی پرائیوسی ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج تک ہمارے سرورز پر رسائی مریض کے آئی ڈی کی معلومات کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے جو ان کی لیبارٹری پورٹس پر پرنٹ ہوتا ہے۔ اسی لیے لیبارٹری رپورٹ کو سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیا جانا چاہیے۔ مریض کے آئی ڈی کی معلومات استعمال کرتے ہوئے آن لائن رپورٹس اور سابقہ رپورٹ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور مریض کے پروفائل پر معلومات کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ کسی نے مریض کی پروفائل تک رسائی حاصل کی اور پتے کی جگہ ایڈیٹ کر دی۔ ‘

چغتائی لیب نے اپنی ٹویٹس میں مزید کہا کہ ’ہمارے تمام مریض ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور ہم کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ ہم نے مریض کی رپورٹس تک رسائی کو بلاک کر دیا ہے تاکہ ان کی آن لائن پروفائل میں مزید چھیڑ چھاڑ نہ کی جا سکی۔ اور اسے بحال کر کے مریض کے خاندان کے ساتھ نئے آئی ڈی کے ساتھ شیئر کیا جائے گا تاکہ ڈیٹا کی پرائیویسی کو قائم رکھا جا سکے۔ ‘ (بشکریہ بی بی سی)

اب معاملہ یہ ہے کہ چغتائی لیب اور شوکت خانم ہسپتال وغیرہ کی لیب وغیرہ اپنے صارفین کو یہ سہولت مہیا کرتے ہیں کہ وہ گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر اپنی رپورٹ موصول کر لیں اور انہیں لیب کا چکر لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس مقصد کے لئے رپورٹ کی رسید کے اوپر مریض کا نام اور ایک پاسورڈ لکھا جاتا ہے جسے لیب کی ویب سائٹ پر ڈال کر اس مریض کی رپورٹ دیکھی جاتی ہے۔ جس شخص کے پاس لیب کا رسیدی کاغذ ہو، صرف وہی رپورٹ دیکھ سکتا ہے۔

کمال یہ ہے کہ نواز شریف کی نجی رپورٹ تک رسائی کے لئے متعلقہ تفصیل مریم نواز شریف نے جاری کی ہے جو کئی برس سے مسلم لیگ نون کا سوشل میڈیا سیل چلا رہی ہیں۔ کیا انہیں بھی یہ علم نہیں کہ یوزر آئی ڈی اور پاسورڈ چھپا کر رکھنے چاہئیں؟ اب آپ کسی کو اپنی یوزر آئی ڈی اور پاسورڈ ہی تھما دیں گے تو کسی بھی ویب سائٹ کی سیکیورٹی اس کا کیا بگاڑ لے گی؟

دوسری طرف چغتائی لیب والوں کو بھی اپنے سسٹم میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹس کی آن لائن فراہم ایک اچھی سہولت ہے۔ مریض کو اپنا رابطہ نمبر اور پتہ تبدیل کرنے کی سہولت دینا بھی نامناسب نہیں ہے (یاد رہے کہ مریض صرف اپنے رابطے کی تفصیلات تبدیل کر سکتا ہے، رپورٹ کا ڈیٹا نہیں)۔ لیکن انہیں اپنے سسٹم میں یہ فیچر ڈالنا چاہیے کہ مریض اگر اجازت دے تو پھر ہی اس کی رپورٹ آن لائن فراہم کی جائے ورنہ نہیں۔ یہی تبدیلی شوکت خانم ہسپتال کی لیب اور دیگر اداروں کو بھی کرنی ہو گی۔

اس کے علاوہ ان کو ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن ڈالنے کی بھی ضرورت ہے جس میں موبائل یا ایمیل پر ایک اضافی کوڈ بھیجا جاتا ہے جسے پاسورڈ کے علاوہ اضافی طور پر  ڈالنے کے بعد ہی سسٹم رسائی دیتا ہے۔ یعنی پاسورڈ چوری بھی ہو جائے تو سسٹم محفوظ رہتا ہے۔
ایسا نہ کیا تو پھر یہی ہو گا کہ غلطی مریم نواز شریف کی ہو گی اور رگڑی چغتائی لیب جائے گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar