ضمانت کا فیصلہ:ووٹ کو عزت ملنے کے سفر کا آغاز!


ضمانت کا فیصلہ:ووٹ کو عزت ملنے کے سفر کا آغاز! نواز شریف صاحب کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی منظوری ن لیگ کے لیے بہت بڑی اخلاقی اور سیاسی فتح کی غماز ہے۔ آج ہی لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے کر ن لیگیوں کو نہال کر دیا۔ اگرچہ عدالت نے نواز شریف کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی مگر حقیقت یہ ہے کہ ضمانت کے لیے دی جانے والی درخواست میں بیرون ملک جانے کا ذکر بھی نہیں تھا۔

اس فیصلے سے ن لیگ کے اس مؤقف کی تائید ہوئی ہے جس میں وہ بار بار وفاقی اور پنجاب حکومت پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ نواز شریف صاحب کو سفاکانہ طور پر انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کی تضحیک کرکے ان کے علاج کے راستے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ اس بات کا اظہار ضمانت کی درخواست منظور ہونے کے بعد منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں بھی شاہد خاقان عباسی نے کیا۔

عدالت کے اس فیصلے سے ہر سٹیک ہولڈر کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا ہے اور سب کو فیصلے کی مدح و ذم میں کہنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور مل گیا ہے۔ ن لیگ کی صفوں میں خوشی کی لہر کا دوڑنا فطری امر ہے۔ حکومت کے لیے یہ تسلی کافی ہے کہ یہ فیصلہ عدالت نے کیا ہے حکومت نے نہیں البتہ شیخ رشید جیسے بڑ بولے اور شیخی بگھارنے والے مشکل میں پھنس گئے ہیں کہ جو مسلسل یہ راگ الاپتے رہے ہیں کہ عمران مر جائے گا لیکن این آر او نہیں دے گا۔

اس فیصلے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عدالت نے ن لیگ کو آدھا ریلیف دے کر حکومت کے خلاف اپوزیشن کے بننے والے ممکنہ احتجاج کے غبارے سے کافی حد تک ہوا نکال دی ہے۔ بلاول بھٹو اور فضل الرحمٰن کے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف گرینڈاپوزیشن کا حصہ بننے سے قبل اب شاید ن لیگ کو کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ اس صورت میں ن لیگ خاص طور پر دباؤ کا شکار رہے گی جب ضمانت کے فیصلے میں نواز شریف کی گرتی صحت کے پیش نظر توسیع کے روشن امکانات نظر آ رہے ہوں۔

اس فیصلے سے ن لیگ کا عدالت پر اعتماد بھی بڑھے گا۔ یہ بھی ممکن ہے اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن خاص طور پر ن لیگ کے مابین ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھے اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو۔ جو لوگ ن لیگ میں نواز، شہباز کے بیانیوں میں واضح اختلاف کی خبریں دے کر دونوں بھائیوں کے طرز سیاست میں فرق کی بنیاد پر دور کی کوڑی لانے کی کوشش کر رہے تھے یقیناً انہیں اس فیصلے سے دھچکا لگا ہوگا۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ نوا شریف کو پاکستان کی سیاست سے لاتعلق کرنے والوں کی خواہش اور کاوش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔

نواز شریف آج بھی پہلے کی طرح نہ صرف ن لیگ کے روح رواں ہیں بلکہ ملک کا سیاسی کھیل بھی ان کے بغیر نہیں کھیلا جا سکتا۔ ان کی خامو شی اور چپ کی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور عدالت نے ان کے مؤقف کو پذیرائی بخشی۔ چیف جسٹس نے کیس کے دوران میں یہ ریمارکس دیے کہ ڈیپریشن صرف نواز شریف کا نہیں اکیسویں صدی کا عمومی مسئلہ ہے۔ نواز شریف کی رہائی کے بعد یہ ڈیپریشن بنی گالہ اور بنی گالہ والوں کے رکھوالوں میں منتقل ہونے کا خدشہ ہے۔

بنی گالہ سے یاد آیا کہ آج تو وہاں بیٹھی روحانی طاقتیں بھی اپنی کوئی کرامت نہ دکھا سکیں نہ ہی رجالِ غیب نے کو کرشمہ برپا کیا۔ لال حویلی کا لال بجھکڑ بھی اپنے ہاں صف ماتم کا اہتمام کرنے والا ہے۔ وقت نے مقتدر حلقوں، نیب اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں معتوب و مغضوب سیاسی پارٹی کے حق میں کروٹ بدلنا شروع کر دی ہے۔ یقیناً یہ سب نواز شریف کی بے بے مثل استقامت، عزیمت، بلند حوصلگی اور ثابت قدمی کا ثمر ہے کہ برے دن اچھے دنوں میں بدلنے والے ہیں۔

تمام اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جن لوگوں نے جیل کے مشکل دنوں میں نواز شریف کی بیماری پر زبان طعن دراز کیے رکھی ان میں تو اتنا ظرف نہیں کہ وہ اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرسکیں مگر عزم و حوصلے کے پہاڑ نواز شریف سے ہم یہ توقع ضرور رکھیں گے کہ وہ انہیں دل سے معاف کرکے ان پر ایک بار پھر اخلاقی برتری ثابت کر دیں۔ نواز شریف نے ووٹ کو عزت دینے کے جس پر خطر اور کٹھن سفر کا آغاز کیا تھا آج کا فیصلہ اس پر خار راستے میں آنے والا ایک خو شگوار پڑاؤ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).