مہوش حیات، عقیل ڈھیڈی اور کچھ مزید اخلاقی مغالطے


23 مارچ کو قومی اعزازات کی تقریب میں اداکارہ مہوش حیات کو تمغہ امتیاز ملنے کے خلاف پی ٹی آئی، پی ایم ایل این اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے حامی بلا امتیاز سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پوسٹیں شیئر کر رہے ہیں۔ ریاست کے آئینی سربراہ کے ہاتھوں دیے گئے اعزاز کی صورت جیسے ان لوگوں کے ہاتھ کوئی ثبوت لگ گیا ہے جس کی بنیاد پر وہ مذکورہ اداکارہ کو اخلاق باختہ قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایوارڈ دیے جانے سے ایک روز قبل مہوش حیات ایسی کسی نفرت انگیز مہم کا نشانہ نہیں تھیں۔

مہوش حیات کو دیے گئے ایوارڈ پر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ اس افسوس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ بجائے مہوش کے یہ ایوارڈ علماء کرام کو کیوں نہیں دیا گیا۔ نہ تو ہمیں معترضین کے اس مطالبے کی وجہ سمجھ آئی ہے نہ ہی اسے سمجھنے میں ذرہ برابر دلچسپی ہے۔ ایک خیال البتہ یہ آیا کہ ہمارا ایک عمومی معاشرتی رویہ ہے کہ ہم سے کسی کی کامیابی ہضم نہیں ہوتی، ہم کسی کو آگے بڑھتے دیکھ نہیں سکتے، ہمیں خوشی ہوتی ہے جب یہ سننے کو ملے کہ فلاں فرد جو کامیاب ہوا وہ اصل میں دو نمبر ہے۔ یہ سننے کی دیر ہے کہ ہم ایسے کسی بھی فرد کی پگڑی اس وقت تک اچھالتے اور خوش ہوتے رہتے ہیں تاوقتیکہ اس پگڑی کی دھجیاں نہ بن جائیں یا ہمیں اس سے بہتر اور بڑی پگڑی نہ مل جائے۔ مہوش کا نفرت انگیز مہم کا نشانہ بننا شاید ایسی ہی ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔

دوسرا دلچسپ پہلو ان اعزازات سے متعلق پاکستانی وارن بفٹ کو دیا گیا اعزاز اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بالخصوص حکومتی جماعت کے سرگرم اور پرجوش ارکان کی مسلسل اور پراسرار خاموشی ہے۔ اے کے ڈی (عقیل کریم ڈھیڈی) عرف پاکستانی وارن بفٹ 82 ارب روپے کی مالیت کے بدعنوانی کے الزامات میں نیب کے زیر تفتیش ہیں۔ 22 فروری کو موصوف کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر مؤثر ہو گئے۔ اور عین ایک ماہ بعد 23 مارچ کو قوم نے دیکھا کہ اے کے ڈی تمغائے گئے۔ اور اس عطا پر بدعنوانی کے خلاف سرگرم قوم یوتھ کے جملہ ارکان خاموش پائے گئے۔

عقیل کریم ڈھیڈی کو یہ اعزاز ریاست کے آئینی سربراہ نے عطا کیا۔ اب بدعنوانی کے مقدمے کے مستقبل کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ جس کے گلے میں صدر پاکستان تمغہ ڈال رہا ہو اس کے ہاتھوں میں کسی ریاستی اہلکار کو ہتھکڑی ڈالنے کی اجازت ہو سکتی ہے؟ یہ سوال یوں جائز ہے کہ ایسا ہرگز نہیں کہ تمغیائے جانے تک تو ڈھیڈی بالکل صاف شفاف شہرت کے حامل تھے اب اگر بعد میں کوئی جرم کیا تو کیوں نہ پکڑے جائیں گے؟

اور اب کسی بدعنوانی میں ان کی مبینہ شمولیت سامنے آنے پر قبل ازیں ان کو اعزاز دینے والوں کی کیا خطا ہے؟ گذارش ہے کہ 23 مارچ کو یہ اعزاز کسی صاف شفاف کاروباری رہنما کو قومی خدمات کے اعتراف میں نہیں بلکہ ایک زیر تفتیش ملزم کو دیا گیا ہے۔ ڈھیڈی کی اگر لائق اعزاز کوئی قومی خدمات ہیں بھی تو اس عطا کو بدعنوانی کا مقدمہ فیصل ہونے تک مؤخر کیا جا سکتا تھا۔ اور اس پر ایک ایسے ملک میں قبرستان کی سی خاموشی ہے جہاں انتخابات سے تین برس قبل سے لے کر انتخابی مہم اور اب تک ٹریژری بنچوں کی طرف سے پارلیمانی مباحث اور پریس کانفرنسوں تک بدعنوانی کو لے کر ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب مقام حیرت ہے کہ ایک اداکارہ کو اپنے شعبے میں خدمات سر انجام دینے پر قوم کے فکری جسد کے دائیں حصے پر تشنج کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود کہ مذکورہ اداکارہ ایک قانونی اور جائز شعبہ زندگی میں کام کر رہی ہیں، ایسے کام پر پہلے اعزازات دیے جانے کی تاریخ ہے اور اداکارہ کے کام کو گھر گھر نہ صرف دیکھا جاتا ہے بلکہ سراہا بھی جاتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ معترضین بھی سراہتے ہوں گے۔ انہی خدمات کا اعتراف ریاست نے کر لیا تو معترضین کو شاید ایسے لگا جیسے ان کا پردہ اٹھ گیا ہو۔

پردہ دوبارہ ڈالنے کی غرض سے مہوش حیات کے ایوارڈ پر احتجاج کے ساتھ ساتھ علما کی زریں خدمات کے عدم اعتراف اور ایوارڈ نہ دیے جانے کو احتجاج کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ تاہم کسی بھی پوسٹ میں ایسی کوئی وضاحت نہیں ملی کہ کون سے علما کو معاشرے کے لئے کس قسم کی خدمات پر اعزازات دیے جانے چاہیے تھے جو نظر انداز کر دیے گئے۔

ان اعتراضات سے قطع نظر ریاست تاہم یقیناً علما کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے، ان کے میدان کار میں ان سے خدمات لیتی ہے اور ان خدمات کا عوضانہ بھی دیتی ہے۔ ایسے اعترافات اور عنایات کو دستوری تحفظ تک حاصل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا ہی ادارہ اور مقام ہے جہاں علما کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور اعترافِ خدمت کرنے کا بندوبست دستور کے تحت کیا گیا ہے۔ اس ادارے کی خدمات کا ایک معروضی جائزہ تاہم اس قوم کی معلومات میں اضافے کے لئے پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کہ یہاں ہونے والے مباحث اور سفارشات ہمارے معاشرتی و قانونی ارتقا میں کرنے ممد و معاون رہے ہیں یا اس کے برعکس کوئی اثر مرتب کرنے کا سبب بنے ہیں؟

علما کی صلاحیتوں سے غیر رسمی بندوبست کے تحت مستفید ہونے کی روایت بھی ہمارے ہاں بہت توانا اور مقبول رہی ہے۔ کبھی بنامِ دفاع پاکستان تو کبھی بعنوانِ مفادِ ملت۔ ان کے بیچوں بیچ حاشیے کی صورت بین الاضلاعی شاہرات اور چوکوں پر قوت ایمانی کے مظاہرے اور جوش ایمانی جگاتے خطبات کے ذریعے گستاخوں کی ناطقہ بندی۔ جالندھر کی مٹی میں معلوم نہیں ایسا کیا ہے کہ وہاں سے وارد ہوا کوئی خطیب ہو یا امیر العساکر، ہر ایک نے گستاخوں کی بیخ کنی میں بقدر رتبہ بھرپور حصہ ڈالا۔

محسوس یوں ہوتا ہے ہمارے ہاں کسی بھی معاملے پر عوامی ردعمل بھی فطری اور بے ساختہ نہیں بلکہ مخصوص گروہی مفادات یا سٹیک ہولڈرز کے طے کردہ فکری زاویوں سے آلودہ ہوتا ہے۔ مغالطے ہیں کہ بڑھتے ہی جاتے ہیں جس طرح ڈھلتے سورج سمے سائے طویل ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).